اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) پاکستان ریلوے نے گزشتہ 28 برسوں کے دوران 23 راہداریوں (ریلوے لائن) پر چلنے والی درجنوں مسافر ٹرینیں بند کیں جس کی وجہ اخراجات میں اضافہ اور آمدن میں کمی بتائی جاتی ہے جبکہ مستقبل قریب میں ان راہداریوں پر دوبارہ ٹرینیں چلائے جانے کا بھی امکان نہیں۔بحالی اسی صورت میں ممکن ہےجب ریلوے کو اضافی وسائل دستیاب اور آمدن میں اضافہ ہو گا۔ دستیاب دستاویزات کے مطابق پاکستان کے 7ڈویژنوں میں واقع اکثر ریلوے راہداریاں قیام پاکستان سے قبل چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کو ریلوے لائن کے ذریعے ملک کے دیگر حصوں سے ملانے کے لیے بچھائی گئی تھیں۔تاہم ماضی میں ریلوے حکام کی نااہلی، کرپشن اور ٹرانسپورٹ مافیا کی ملی بھگت کے باعث ان راہداریوں پر ٹرین سروس کو بتدریج ختم کر دیا گیا ۔ راولپنڈی ڈویژن میں واقع جو 5 راہداریاں اب تک بند کی گئی ہیں ان میں مندرا۔بھاؤں راہداری یکم جولائی 1991 ، پنڈدادن خان۔ خوشاب راہداری 25 اپریل 2004 ، میانی۔ بھرہ راہداری 11 مئی 2006 ، ملکوال۔ غریب وال راہداری 12 مئی 2010 جبکہ سرگودھا۔کندیاں راہداری 18 مئی 2013 سے بند پڑی ہے۔ اسی طرح کراچی ڈویژن میں واقع لنڈی کورنگی راہداری 1990، کراچی سرکولر ریلوے 2003 جبکہ جمراؤ، جھودو، پتورو راہداری 2005 سے بند ہے۔ سکھر ڈویژن میں 6 راہداریاں بند کی گئیں جن میں ٹنڈو آدم۔تھرو شاہ۔مہراب پور، نواب شاہ۔سکرند اور خان پور۔چچڑاں، پدیداں۔ تھروشاہ۔ مہراب پور اور ٹنڈو آدم۔ سکرند۔ پدیداں راہداریاں 1991 جبکہ جیکب آباد۔لاڑکانہ براستہ شاہ دادکوٹ راہداری 2009 میں بند کر دی گئی۔ پشاور ڈویژن میں ماڑی انڈس۔لکی مروت۔ٹانک راہداری 1991 ، نوشہرہ ۔درگئی اور چارسدہ۔مردان راہداریاں 2000 ، پشاور۔لنڈی کوتل راہداری پل گرنے کے باعث 2000 کے بعد سے بند پڑی ہے۔ ملتان ڈویژن میں بہاولنگر۔فورٹ عباس راہداری 1997 جبکہ سمہ سٹہ۔امروکا راہداری 25 اگست2011 سے بند پڑی ہے۔ کوئٹہ ڈویژن میں پوستان۔ژوب راہداری جولائی 1991 جبکہ سبی ۔کھوسٹ راہداری 2006 سے بند پڑی ہے۔ اسی طرح لاہور ڈویژن میں ایک راہداری ناروال۔چک عمرو راہداری 2005 سے بند پڑی ہے۔