نئی دہلی/ اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک/ امت نیوز) پاکستان کی جانب سے خطے میں امن کی ایک اور کوشش بھارت نے ناکام بنا دی، جس کے نتیجے میں خطے کا امن داؤ پر لگ گیا ہے۔مودی سرکار کی جانب سے مذاکرات کی میز سے فرار کے بعد بھارتی آرمی چیف نے بھی ہرزہ سرائی شروع کر دی اور کہا ہے کہ پاکستان کو درد محسوس کرانا چاہتے ہیں۔ بھارتی بارڈر فورس کے اہلکاروں کی ہلاکت کا بدلہ لیں گے اور در اندازوں کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج کے بہیمانہ مظالم کو تسلیم کرنے کے بجائے جنرل بپن راوت نے بھارتی حکومت کی جانب سے وزرائے خارجہ کی سطح پر ملاقات کی منسوخ کرنے کی حمایت کر دی اور ایک بار پھر پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ جواب دینے کا وقت آگیا ہے۔ پاک فوج کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ جاری نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اپنی حکومت کو پاکستان سے مذاکرات کرنے سے منع کیا تھا۔ ادھر پاک فوج نے بھارتی فوجی سربراہ کی گیدڑ بھبکی کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں اور جنگ کیلئے بالکل تیار ہیں۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم پرامن طریقے سے معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ ہمیں امن کی قیمت معلوم ہے، لیکن ہماری اس خواہش کو کمزوری مت سمجھا جائے، کسی نے صبر کا امتحان لینے کی کوشش کی تو قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔میجر جنرل آصف غفور نے بھارتی آرمی چیف کے بیان کو انتہائی نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک ایٹمی ملک کو اشتعال نہ دلائے، جنگ اس وقت ہوتی ہے جب کوئی جنگ کے لیے تیار نہ ہو۔ پاکستان نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور گزشتہ 2 دہائیوں میں امن قائم کیا۔انہوں نے بھارتی آرمی چیف کو ماضی کی نشاندہی کرتے ہوئے یاد دہانی کرائی کہ بھارت ہمیشہ مذاکرات سے بھاگا ہے۔ اس کی فوج سرجیکل اسٹرائیک کا ثبوت اپنی پارلیمنٹ میں نہیں دے سکی۔ انڈیا جتنی بھی کوشش کرلے، جھوٹ ہمیشہ جھوٹ ہی رہے گا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے جبکہ بھارتی فوج اپنی ملک کی سیاست میں گھری ہوئی ہے۔انہیں مقبوضہ کشمیر میں سیاسی تحریک کا سامنا ہے جسے وہ دبا نہیں پا رہے۔ ان تمام چیزوں سے توجہ ہٹانے اور رخ موڑنے کیلئے آج یہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور نئی دہلی نےایسا مؤقف اپنایا ہے، جس میں پاکستان دشمنی آئے، بھارت اور ان کے آرمی چیف کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ہمیں امن خراب نہیں کرنا کیونکہ امن رہے گا تو سب ترقی کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹ سامنے آئی، جس کے بعد پاکستان کی نگران حکومت نے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا، لیکن اسے بہانہ بنا کر یہ کہنا کہ امن خراب ہوا ہے، غلط ہے، مقبوضہ کشمیر میں ایک سیاسی اور خودمختار تحریک ہے اور کشمیریوں کی تیسری نسل قربانیاں دے رہی ہے، جہاں تک بی ایس ایف کے فوجی کی بات ہے تو پہلے بھی انہوں نے اس طرح کا الزام عائد کیا تھا، تاہم ہم ایک پروفیشنل آرمی ہیں اور کسی بھی فوجی کی بے حرمتی نہیں کر سکتے خواہ وہ کسی بھی ملک کا کیوں نہ ہو؟ بھارت مذاکرات کی میز پر آئے، کیونکہ مذاکرات سے جب بھی کوئی بھاگا ہے تو وہ بھارت بھاگا ہے، حکومت پاکستان کی آج بھی مذاکرات کی پیشکش موجود ہے۔اس سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میری طرف سے بھارت کو امن مذاکرات کی بحالی کی دعوت دی گئی تھی، لیکن اس پر منفی جواب سے مایوسی ہوئی۔ عمران خان نے کہا تھا کہ امن مذاکرات کی بحالی کی دعوت کے جواب میں بھارت کا منفی اور متکبر رویہ باعث افسوس ہے۔ اپنی پوری زندگی میں نے چھوٹی سوچ والے لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر قابض ہوتے دیکھا ہے۔ یہ لوگ بصارت سے عاری اور دور اندیشی سے یکسر محروم ہوتے ہیں، ان کے پاس وسیع منظر نامے کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ واضح رہے کہ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے سے قبل ہی بھارت کو امن مذاکرات کی دعوت دی اور کہا تھا کہ بھارت ایک قدم ہماری طرف بڑھائے گا تو ہم 2 قدم آگے بڑھیں گے۔بعد ازاں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد باضابطہ طور پر مذاکرات کی دعوت دی۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کی درخواست کے لیے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے بھارتی حکام کو 2 علیحدہ خطوط بھی لکھے گئے۔20 ستمبر کو ان خطوط کے جواب میں بھارت نےرضامندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان 27 ستمبر کو نیویارک میں ملاقات ہوگی۔ تاہم اگلے ہی روز مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال کا بہانہ بناتے ہوئے یہ ملاقات منسوخ کر دی ۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کے جذبہ خیر سگالی پر بھارت کے پیچھے ہٹنے سے افسوس ہوا، ملاقات سے انکار کے لیے بھارت نے جولائی کے معاملے کو ستمبر میں بہانہ بنا کر پیش کیا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں پاکستان کا موقف بھرپور طریقے سے بیان کیا جائے گا، جنرل اسمبلی اجلاس کے علاوہ دیگر اجلاسوں اور ملاقاتوں میں بھی پاکستان کا بھرپور انداز میں موقف پیش کیا جائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ ہونے والی دوسری ملاقات پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری کے سلسلے میں اہم پیشرفت ثابت ہوگی۔