محکمہ بلدیات کے اداروں میں ایک ارب کی بے ضابطگیاں سامنے آگئیں

کراچی (رپورٹ: نواز بھٹو) نیب اور اینٹی کرپشن کے بعد آڈیٹر جنرل نے بھی محکمہ بلدیات کے ماتحت اداروں اور شعبوں میں ایک ارب روپے مالیت کی سنگین مالی بے قاعدگیوں کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ سب سے زیادہ بے ضابطگیاں و کرپشن لیاری ایکسپریس وے بحالی منصوبے اور ادارہ ترقیات کراچی (کے ڈی اے) میں کی گئی۔ تفصیلات کے مطابق لوکل کونسلز سے متعلق ڈائریکٹر جنرل آڈٹ نے سیکریٹری بلدیات سندھ کو ایک تفصیلی لیٹر ارسال کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ محکمہ بلدیات کے ماتحت مختلف ادارے سنگین مالی بے قاعدگیوں میں ملوث ہیں۔ لکھے گئے لیٹر No.DGALCS/ KAR/Report Section/ 2018-19/ 1639 میں کہا گیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے مالی سال 2016-17 کے آڈٹ کے دوران سنگین بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے، جب متعلقہ اداروں اور کونسلز سے دستاویزات طلب کی گئیں تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ محکمہ بلدیات کے ماتحت ان اداروں اور کونسلز کو متعدد لیٹر لکھے گئے، لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ لیٹر میں سیکریٹری بلدیات سے کہا گیا ہے کہ متعلقہ شعبوں، اداروں اور کونسلز کو ریکارڈ کی فراہمی کی ہدایات جاری کی جائیں۔بصورت دیگر ان بے قاعدگیوں کو مالی سال 19-2018کی آڈٹ رپورٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔ خط میں درج بے ضابطگیوں کی تفصیلات کے مطابق پروجیکٹ ڈائریکٹر لیاری ڈیولپمنٹ پیکج نے منصوبوں کی عدم تکمیل کے باوجود خلاف ضابطہ8کروڑ63لاکھ 879 روپے کی ادائیگیاں کی، جن کے تفصیلات کہیں درج نہیں ہیں۔دیگر معاملات میں بھی بغیر متعلقہ دستاویزات لاکھوں روپے خرچ کئے گئے۔ لیاری ایکسپریس وے بحالی منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے معاوضے کی مد میں دیئے جانے والے 10لاکھ، 50ہزار کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ بعدازاں بغیر متعلقہ دستاویزات کے3کروڑ 39لاکھ، 80ہزار روپے کی ایک اور ادائیگی ہوئی، جس کی وضاحت موجود نہیں۔ عدالت کے ناظر کو بھی 3کروڑ 63لاکھ، 25 ہزار، 715روپے کی غیر قانونی ادائیگی کی گئی۔ ڈپٹی کمشنر غربی کو بغیر متعلقہ دستاویزات کے معاوضے کی ادائیگی کے نام پر 41کروڑ، 89لاکھ، 28ہزار، 510روپے دیئے گئے۔ ڈپٹی کمشنر وسطی کو بھی بغیر متعلقہ دستاویزات کے معاوضے کی ادائیگی کے نام پر 10کروڑ، 19لاکھ، 3ہزار، 830روپے ادا کئے گئے۔ یہ رقم کہاں خرچ ہوئی اس کی ریکارڈ میں کہیں کوئی وضاحت اور دستاویزات موجود نہیں ہیں۔آڈٹ کے دوران دیکھا گیا کہ لیاری ایکسپریس وے بحالی منصوبے کے کنسلٹنٹ کو 20لاکھ، 82ہزار، 927 روپے کی غیر قانونی ادائیگی کی گئی اور ان سے 93ہزار، 292 روپے انکم ٹیکس بھی وصول نہیں کیا گیا۔منصوبے کی تکمیل کے باوجود عملے کی تنخواہوں کی مد میں 1 کروڑ، 64 لاکھ، 985 روپے خرچ کئے گئے۔ ڈائریکٹر لینڈ (لینڈ منیجمنٹ اینڈ ری سیٹلمینٹ ڈپارٹمنٹ) نے بھی لاکھوں روپے کی ایسی ادائیگیاں کی ہیں، جن کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ادارہ ترقیات کراچی (کے ڈی اے)نے 1کروڑ، 28لاکھ، 70ہزار، 604 روپے کی ایسی ادائیگیاں کی ہیں جن کے تفصیلات درج نہیں اور دستاویزات موجود ہیں۔ یوٹیلیٹی الاؤنس کی مد میں کی جانے والی ناجائز ادائیگیاں 16 لاکھ 39 ہزار روپے ہیں۔ہاؤس رینٹ کی مد میں 21لاکھ، 20ہزار، 917روپے کی اضافی ادائیگی کی گئی۔رہائشی سہولیات ہونے کے باوجود ملازمین کو ہاؤس رینٹ کی مد میں خلاف ضابطہ 9لاکھ، 756روپے ادا کئے گئے۔غیر مستحق افسران کو1 کروڑ، 14لاکھ، 3ہزار روپے کا پیٹرول جاری کیا گیا۔ وکلا کی خدمات حاصل کئے بغیر لا ڈپارٹمنٹ کو 1 کروڑ، 94 لاکھ روپے ادا کئے گئے۔ لاگ بک میں اندراج کے بغیر 38 لاکھ، 98 ہزار، 126 روپے کا پیٹرول خرچ کیا گیا۔اس طرح مختلف مدوں میں کروڑوں روپے خرچ کئے گئے، لیکن ان کا نہ کوئی حساب ہے اور نہ ہی کہیں اندراج کیا گیا ہے۔ڈائریکٹر پلاننگ مانیٹرنگ اینڈ ایولیشن سیل نے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت منصوبوں کے ٹینڈر کی طلبی میں تاخیر کی، جس کی وجہ سے 18ہزار، 672روپے کا نقصان ہوا۔ غیر قانونی طور پر اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایک ترقیاتی منصوبے کے 1 لاکھ ، 65 ہزار 895 روپے دوسری اسکیم میں منتقل کر دیئے گئے۔ پی سی فور کی منظوری کے بغیر 9لاکھ، 3ہزار، 538روپے ایک منصوبے پر خرچ کئے گئے۔لائنز ایریا بحالی منصوبے کے پی ڈی کی طرف سے واجبات کی عدم ادائیگی کی مد میں خزانے کو 6لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا، جبکہ ملازمین کے ہاؤس رینٹ الاؤنس، اوپن چیک کے ذریعے ناجائز ادائیگیوں، کانٹریکٹ پر خلاف ضابطہ بھرتیوں اور واجبات کی عدم وصولی کی وجہ سے خزانے کو لاکھوں روپے کو نقصان پہنچایا گیا۔ چیف میڈیکل آفیسر پولی کلنک میڈیکل ڈپارٹمنٹ کے ڈی اے نے مختلف اسپتالوں، لیبارٹریز، اسپیشلسٹس اور دیگر کو خلاف ضابطہ اور مقررہ شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 2لاکھ 14ہزار 777روپے ادا کئے۔ پینل نہ ہونے کے باوجود مخفلس اسپتالوں کو 1 کروڑ، 13 لاکھ، 7ہزار روپے غیر قانونی طور پر ادا کئے گئے۔ آغا خان میڈیکل سینٹر سمیت مختلف پینل اور نان پینل اسپتالوں کو 2 لاکھ 14 ہزار 777 روپے ادا کئے گئے۔ اسی طرح بقائی میڈیکل، لیاقت میموریل، کنوینس الاؤنس کی مد میں لاکھوں روپے ادا کئے گئے جن کا نہ کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ہی اندراج کیا گیا ہے۔کے ڈی اے کی ایک پائپ فیکٹری کے منیجر نے خلاف ضابطہ لاکھوں روپے خرچ کر ڈالے پر جب ان کا حساب مانگا گیا تو اس کے پاس کوئی حساب نہیں تھا۔ اسی طرح ڈائریکٹر اسٹیٹ اینڈانفورسمینٹ کے ڈی اے نے بھی لاکھوں روپے بغیر حساب کتاب کے خرچ کئے۔خط میں بتایا گیا کہ ضلع کونسل کراچی میں مال پڑی کی نیلامی کی رقم 18ہزار 388 روپے ٹھیکیدار سے وصول نہیں کئے گئے جس سے خزانے کو نقصان پہنچا، خلاف ضابطہ کام کا ٹھیکہ دینے کی مد میں 78ہزار، 553روپے، غیر رجسٹرڈ فرم کو ٹھیکہ دینے کے نام پر 1لاکھ، 13ہزار، 615 روپے، خلاف ضابطہ آکشن کمیٹی تشکیل دے کر 63ہزار 595 روپے کے کام جاری کئے گئے۔ واجبات کے نام پر خرچ کئے گئے 24 ہزار 402 روپے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ سپرا کی ویب سائٹ پر ٹینڈر رکھے بغیر 24ہزار 711روپے کے کام جاری کئے گئے۔جبکہ مالی سال 17/2016 میں کئے جانے والے دیگر کئی اخراجات کا ریکارڈ بھی نہیں ہے۔سینیئر ڈائریکٹر ماسٹر پلان نے خلاف ضابطہ یوٹیلیٹی ادائیگیاں کے نام پر 31ہزار 293 روپے، جبکہ واجبات کے نام پر خلاف ضابطہ ادائیگیوں کے نام پر 11 لاکھ ، 16 ہزار روپے، کمرشل پلاٹوں کے رہائشی میں تبدیل ہونے پر واٹر بورڈ کے 4 لاکھ 13 ہزار روپے کے واجبات کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ چیف آفیسر ضلع کونسل کشمور نے انکم ٹیکس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے قومی خزانے کو 1 لاکھ، 70 ہزار، 49 روپے کا نقصان پہنچایا ۔1 کروڑ 35 لاکھ روپے کی ناجائز ادائیگیاں کی گئیں جن کے نہ واؤچرز ہیں اور نہ ہی دیگر متعلقہ دستاویزات موجود ہیں۔

Comments (0)
Add Comment