عمران خان کو یقین تھا کہ بھارت ان کی حکومت کو عارضی ہی سہی، مگر امن کا تحفہ دے گا اور صرف عمران خان کو ہی نہیں، ہمارے ملک کے نئے وزیر خارجہ کو بھی یہ خوش فہمی تھی کہ ان کے پرانے تعلقات کام آئیںگے اور جب وہ نیویارک جائیں گے، تب ان کی ملاقات اپنی بھارتی ہم منصب سشما سوراج سے ہوگی۔ اس سے قبل کہ سرحد کے دونوں طرف سے امید پرست افراد امن کے شادیانے بجائیں، بھارت نے اچانک امریکہ میں ہونے والی وزرائے خارجہ کی ملاقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ مذکورہ ملاقات ختم کرنے کے ساتھ بھارت کے آرمی چیف جنرل راوت نے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیان بھی جاری کردیا۔ یہ سب کیوں ہوا؟
اس سوال پر ہمارے نئے وزیر اعظم کو سوچنے کا بھرپور موقعہ ملا ہے۔ عمران خان سیاست میں بھلے پرانے ہوں، مگر سرکار میں نئے ہیں۔ انہیں سرکاری مائینڈ سیٹ کا عملی تجربہ بھی نہیں ہے اور وہ کتابی کیڑے بھی نہیں کہ علمی طور پر حکومت کی نفسیات کو سمجھ پائیں۔ جب کہ پاکستان اور بھارت کا معاملہ حکومتوں سے زیادہ ریاستوں کا ہے۔ ریاست ایک بہت بڑی حقیقت کا نام ہے۔ حکومت ریاست کا ایک چھوٹا سا حصہ ہوتی ہے۔ سیاسی امور میں ذاتی تعلقات کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ مگر جب بات ریاست کی آجاتی ہے، تب ذاتی تعلقات بے معنی بن جاتے ہیں۔ عمران خان صاحب کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ وہ بھلے بھارت میں مقبول ہوں اور بھارت میں ان کے سب سے زیادہ تعلقات بھی ہوں، مگر وہ اپنی مقبولیت اور پہچان کے ذریعے بھارت سے کوئی فائدہ نہیں لے سکتے۔ عمران خان نے کچھ عرصہ قبل بھارت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پاکستان کے دوسرے سیاستدانوں کے مقابلے میں بھارت میں زیادہ تعلقات رکھتے ہیں۔ اگر عمران خان کا خیال یہ ہے کہ ان کے ذاتی تعلقات ان کی ڈپلومیٹک مسافری میں ان کے مددگار ثابت ہوں گے تو یہ ان کی معصومیت ہے۔ بھارتی ریاست ایسے کسی پاکستانی سیاستدان یا حکمران کو پسند نہیں کر سکتی، جو ان کے عوام میں مقبول ہو۔ یہ بات وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی معلوم ہونی چاہئے کہ ذاتی تعلقات اور ریاستی مفادات تو الگ دنیاؤں میں بستے ہیں۔ وہ کیوں بھول رہے ہیں کہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت میں وہ اسی عہدے پر فائز تھے اور اس دوران امریکہ کی فارن سیکریٹری ہلیری کلنٹن پاکستانی دورے پر آئی تھیں اور اس بار بھی ہمیشہ کی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے امریکی مہمان کو خوشامد سے خوش کرنے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر آخر میں کیا ہوا؟ ہلیری سے پاکستان کے سارے مشہور صحافیوں کی ملاقات کروائی گئی۔ اس دور کے ڈی جی ریڈیو پاکستان مرتضیٰ سولنگی نے بذات خود ان کا خوشامد سے بھرپور انٹرویو کیا۔ شاہ محمود قریشی جس طرح ان سے ساغر اور سر ٹکرا کر تصاویر بنوا رہے تھے، وہ سب کچھ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے لیے کافی تھا۔ مگر آخر میں کیا ہوا؟ جب ہلیری کلنٹن اپنا دورہ مکمل کر رہی تھیں، تب انہوں نے پاکستان پر الزامات کی بارش کر دی اور شاہ محمود قریشی بھیگے پرندے کی طرح ڈپلومیسی کی شاخ پر مایوس بیٹھے نظر آئے۔
امریکہ اور انڈیا کی ریاستی فطرت میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کی نظر صرف اور صرف اپنے مفاد تک محدود ہوتی ہے۔ سفارتی دنیا میں پیار، عشق اور محبت کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہوتا۔ اس لیے جب نوجوان اس شعبے میں داخل ہوتے ہیں، تب انہیں پہلا سبق یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی کسی سے پیار نہیں کرتا۔ ہر کوئی اپنا کام کرتا ہے۔ اس لیے جو غیر ملکی لڑکی تمہیں دیکھ کر زیادہ مسکرائے، اس سے دور رہو۔ کیوں کہ وہ یقینی طور پر ایجنٹ ہوگی۔ ریاست کی سیاست بہت بے رحم ہوتی ہے۔ اس کی ستم ظریفی کو سمجھنے کے لیے یا جاسوس اداروں کی پرانی فائلیں پڑھنی چاہئیں یا وہ ناول جو سرد جنگ کے پس منظر میں لکھے گئے۔ اگر ریاست کی سیاست اتنی سخت دل نہ ہو تو پھر سرحدوں کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ انسانی جذبات کی ریاستی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
عمران خان کا خیال تھا کہ وہ بھارت کے لیے Charm offensive کا سبب بن جائیں گے، مگر بھارت کی طرف سے ہمارے نئے اور ماڈرن وزیر اعظم کو جو پیغام موصول ہوا، وہ کڑوے بادام کی طرح تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت اب تک اس بات پر سوچ رہی ہوگی کہ یہ سب کچھ اچانک کیا ہوا؟ نہ بھارت میں بم پھٹا اور نہ سفارتی دنیا میں کوئی بڑی چال چلی گئی، تو پھر بھارت نے طے شدہ ملاقات کو کینسل کرنے کا اعلان کیوں کیا؟ بھارت مذکورہ ملاقات کوختم کرنے کے سلسلے میں جو سبب پیش کر رہا ہے، وہ سبب ناقابل فہم ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر میں تین پولیس اہلکار حریت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تو اس پر دلی حکومت کیوں ہل گئی؟ کیا کشمیر کی وادیوں میں خون کا بہنا کوئی نئی بات ہے؟ نصف صدی سے کشمیر میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ اس بار بھارت نے جس بات کو بائیکاٹ کا بہانہ بنایا ہے، وہ بات تو اتنی بڑی بھی نہیں۔ اس بار کشمیری حریت پسندوں نے کسی بھارت کی فوجی چھائونی پر حملہ نہیں کیا۔ اس بار حریت پسندوں نے کسی بھارتی کرنل یا برگیڈیئر کو نشانہ نہیں بنایا۔ اس بار تو کشمیر میں تین پولیس اہلکار قتل ہوئے ہیں۔ ان تین پولیس اہلکاروں میں بھی دو مسلمان ہیں۔ کشمیر میں پولیس اہکاروں کا قتل ہونا بھی کوئی عجیب بات نہیں۔ اب تک کوئی 1500 سے زیادہ پولیس اہلکار مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں۔ پولیس کے ساتھ مجاہدین کے ٹکراؤ پر عالمی میڈیا تحقیقی اسٹوریز منظر عام پر لا رہا ہے۔ گزشتہ روز ’’الجزیرہ‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ اس موضوع پر شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ قصور حریت پسندوں کا نہیں، بلکہ بھارتی حکومت کا ہے کہ وہ پولیس سے مجاہدین کے خلاف آپریش کرنے کا کام لے رہی ہے۔ حالانکہ یہ کام پولیس کا نہیں ہے۔ پولیس کا کام صرف امن و امان کی صورتحال بہتر بنانا ہے، مگر جب مقبوضہ وادی کی پولیس سے جاسوسی بھی کروائی جائے گی اور مجاہدین کے خاندانوں کو ہراساں بھی کروایا جائے گا تو پھر ایسے اعمال کے ایسے نتائج تو نکلتے ہیں۔ کشمیری مجاہدین کی اپنی حکمت عملی ہے۔ اس وقت وہ سوشل میڈیا کے ذریعے پوری وادی کی پولیس کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ’’یا مستعفی ہو جاؤ یا موت قبول کرو۔‘‘ مذکورہ تین پولیس اہلکاروں کے قتل کے بعد کشمیر پولیس میں خوف کی خطرناک لہر چل رہی ہے۔ بہت سارے پولیس اہلکار سوشل میڈیا پر پولیس سے استعفے دے رہے ہیں۔ بھارت کی وزارت داخلہ اس صورتحال سے بہت پریشان ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ کہیں کشمیر کے سارے باشندے پولیس سے مستعفی نہ ہو جائیں۔ کشمیر میں مجاہدین حکمت عملی کے حوالے سے جس طرح آگے بڑھ رہے ہیں اور بھارتی ریاست مستقل طور پر پیچھے ہٹ رہی ہے، وہ سب کچھ بھارتی فوج کے لیے توہین کا تاریخی باب تحریر کر رہا ہے۔
جنرل راوت نے پاکستان کے خلاف جو بیان جاری کیا ہے، وجہ اس کی شکست کا اعتراف ہے۔ یہ ممکن ہے اور عین ممکن ہے کہ بھارتی حکومت سے بھارتی فوج نے کہا ہو کہ اس وقت پاکستان کے ساتھ مذکرات کا مطلب ہمارے زخموں میں نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔ کیوں کہ بھارتی فوج کشمیر میں بری طرح سے پٹ رہی ہے۔ بھارتی فوج کی ساری انا مٹی میں مل چکی ہے۔ بھارتی فوج کی جو بے عزتی اس وقت کشمیر میں ہو رہی ہے، وہ کبھی کہیں نہیں ہوئی۔ ایک طرف کشمیری مجاہدین بھارتی فوج پر ضرب لگا رہے ہیں اور دوسری طرف وادی کے لاکھوں نوجوان سوشل میڈیا پر بھارتی فوج کو خوار کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ بھارتی فوج کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ بھارتی فوج کو معلوم بھی ہے کہ اب کشمیر کی تحریک کو پاکستان کی طرف سے پہلے کی طرح سپلائی لائن حاصل نہیں ہے۔ بھارتی فوج اس وجہ سے زیادہ پریشان ہے کہ کشمیر کے لوگ اب اپنے بل بوتے پر مزاحمت کر رہے ہیں۔ یہ مزاحمت بھارتی ریاست کے لیے زیادہ پریشانی کا سبب ہے۔
بھارت جانتا ہے اور اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کی کشمیر میں جو پٹائی ہو رہی ہے، اس میں پاکستان کا کوئی بڑا کردار نہیں، مگر بھارت کا خیال ہے کہ اگر پاکستان چاہے تو کشمیر کی تحریک میں موجود شدت کم ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ پاکستان کشمیر کی تحریک کو کنٹرول نہیں کرسکتا، مگر بھارت کافی عرصے سے پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے کہ وہ کشمیر میں جاری آزادی کی جدوجہد کو ذرا کم کرنے میں کردار ادا کرے۔ پاکستان سے مذکرات کا بائیکاٹ اور پاکستان کے خلاف امریکہ کو استعمال کرنے کی ساری سازشوں کا سبب کشمیر میں چلنے والی آزادی کی تحریک میں پاکستان کا بھارت نواز کردار ادا کرنے سے صاف انکار ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ کشمیر میں جلتی ہوئی آگ کی شدت کم کرنے میں پاکستان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور پاکستان بطور ریاست جانتا ہے کہ کشمیر کے حریت پسند صرف اپنی آزادی کی نہیں، پاکستان کے تحفظ کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ کشمیر کے حریت پسندوں کو پاکستان کی مدد حاصل نہیں، مگر وہ اسٹرٹیجک حوالے سے پاکستان کے نہ صرف مددگار ہیں، بلکہ پاکستان کے فطری تحفظ کی پہاڑی دیوار ہیں۔ پاکستان اپنی دفاعی دیوار کو اپنے ہاتھوں سے منہدم کس طرح کرے اور کیوں کرے؟ اور وہ بھی بھارت کے لیے!!؟
اس بھارت کے لیے جس نے اب تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ جس کی ریاست کی سیاست کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو ناکام بنانا ہے۔ اس وقت بھارت چین کی وجہ سے مجبور ہے۔ اگر اس خطے میں چین نہ ہوتا تو بھارت علاقے کا کھلا بدمعاش بن جاتا۔ چین اور پاکستان کا فطری رشتہ بھارت کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ وہ تکلیف سی پیک کی وجہ سے بہت زیادہ شدید ہوگئی ہے۔ جب بھارت دیکھ رہا ہے کہ سعودی عرب بھی سی پیک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہوگیا ہے، تب وہ ناقابل برداشت اذیت میں مبتلا ہو رہا ہے۔ اس مجموعی اذیت کے باعث بھارت نے پاکستان کے ساتھ وزرائے خارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات سے انکار کر دیا۔