کراچی( رپورٹ:زیان سعید احمد ) ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن شوکت علی کے خلاف انکوائری میں نیب کو ثبوت پیش کر دیئے گئے ۔انکوائری کے دوران ڈائریکٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب روالپنڈی نے درخواست دہندہ سابق انٹیلی جنس افسر کسٹم عامر شبیر سے 6گھنٹے تک پوچھ گچھ کی جس کے دوران انہوں نے ڈی جی کسٹم انٹیلی جنس شوکت علی کیخلاف کرپشن کے ثبوتوں پر مشتمل دستاویزات پیش کر دیں ۔ درخواست کے مطابق ڈی جی کسٹم انٹیلی جنس شوکت علی تین برسوں تک فیصل آباد ڈرائی پورٹ پر من پسند کمپنیوں کو نوازنے کے لئے ان کے کنٹینرز کم سے کم ڈیوٹی پر کلیئر کرتے رہے جن میں صابن ،مصنوعی زیورات،بھارتی کپڑے و دیگر اشیاءکے ہزاروں کنٹینرز شامل تھے ان پر ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں قومی خزانے کو 80کروڑ روپے نقصان پہنچانے کا الزام ہے ،جبکہ ڈی جی کسٹم انٹیلی جنس کی حیثیت سے بھی وہ کرپشن میں ملوث رہے ۔ان کے خلاف دو مرتبہ انکوائریاں ہوئیں جن میں وہ قصور وار پائے گئے تاہم رپورٹس کو دبا دیا گیا اس کے علاوہ انہوں نے مختلف سیاستدانوں ،بیوروکریٹس کو نان کسٹم پیڈ لگثرری گاڑیاں فراہم کیں اور ان سے مختلف فوائد حاصل کئے ۔ذرائع کے مطابق سابق انٹیلی جنس اہلکار نےنیب حکام کو ڈی جی شوکت علی کے حوالے سے جو دستاویزات پیش کیں ان کے مطابق ڈی جی شوکت علی کے دبئی کے اس ویزے کے کوائف بھی شامل ہیں جس میں انہوں نے خود کو بزنس مین ظاہر کیا اس کے علاوہ ان کے فرنٹ مین مشتاق سرگانہ کے حوالے سے بھی کرپشن کے ثبوت پیش کئے گئے جبکہ ایک ایسی فہرست بھی نیب حکام کے حوالے کی گئی ہے جس میں ڈی جی شوکت علی کے لئے مہینے کی بنیاد پر رشوت جمع کرنے والے کسٹم افسران کے نام شامل ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے ذرائع کے بقول ڈی جی شوکت علی کے حوالے سے جو کرپشن کے ثبوت پیش کئے گئے ہیں ان کا تعلق 2010سے لے کر 2018تک کے معاملات سے ہے اس عرصے کے دوران ڈی جی شوکت علی کلکٹر فیصل آباد ڈرائی پورٹ رہے اور اس کے بعد سے وہ گزشتہ د و برس سے ڈائریکٹر جنرل کسٹم انٹیلی جنس کی حیثیت سے اسلام آباد میں تعینات ہیں ۔