کراچی(رپورٹ:نواز بھٹو)محکمہ بلدیات نےنیب حکام کی ہدایات کی روشنی میں تمام بلدیاتی ملازمین کی تنخواہوں کو اے جی سندھ سے منسلک کرنے اور سیپ سسٹم پرلانے کا فیصلہ کر لیا۔ تمام بلدیاتی اداروں، کونسلز اور کارپورینشنز کے ملازمین کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے، فنڈز اور بجٹ کے آڈٹ کے لئے میکنزم مرتب کرنے اور بایو میٹرک نظام نصب کرنے کے لئے نیب حکام کو 12ہزار جعلی ملازمین کی تحقیقات ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے کی سفارش کر دی گئی۔ گریڈ 16 اور اس سے زائد کی اسامیاں پُر کرنے کے لئے سندھ پبلک سروس کمیشن سے رجوع کرنے پر بھی غور شروع کردیا گیا ہے۔سیکریٹری بلدیات کا کہنا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ تفصیلات کے مطابق نیب حکام کی مسلسل ہدایات کے بعد محکمہ بلدیات نے کرپشن کے خاتمے کے لئے سنجیدہ اقدامات کا فیصلہ کر لیا ہے ،جس کے تحت محکمہ بلدیات نے تمام بلدیاتی اداروں، کونسلز اور کارپورینشنز کے ملازمین کو گرانٹ کے ذریعے تنخواہیں نہ دینے ، تنخواہوں کو سیپ سسٹم پر لانے اور اے جی سندھ کے منسلک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نیب سکھر حکام کے ساتھ ہونے والے تین اجلاسوں کے بعد محکمہ بلدیات نے تمام ملازمین کا ریکارڈ یکجا کرنے اور کمپیوٹرائزڈ کرنے کی بھی منظوری دی ہے۔حاصل دستاویزات کے مطابق اس سلسلے میں محکمہ بلدیات اور نیب حکام سکھر کے درمیان تین اجلاس منعقد ہو چکے ہیں ۔پہلا اجلاس 29 اگست 2017 کو ڈی جی نیب سکھر فیاض احمد قریشی کی صدارت میں ہوا ،جس کے مندرجات 18 اکتوبر 2017 کو جاری ہوئے۔ گزشتہ سال ہونے والے اس اجلاس کے فیصلوں پر عملدرآمد کے جائزے کے حوالے سے 03 اگست 2018 کو دوسرا اور تیسرا اجلاس 28 اگست کو پھر سکھر میں منعقد ہوا ،جس میں سیکریٹری بلدیات اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ جن میں محکمے سے متعلق اہم فیصلے کئے گئے۔ اجلاس میں ہدایات پر عملدرآمد نہ کرنے پر نیب حکام نے محکمہ بلدیات کے حکام کی سرزنش بھی کی اور کہا کہ اب محکمے کو درست سمت میں لانے کے لئے وہ خود سفارشات مرتب کریں گے ،جس کے لئے اکتوبر 2018 کے وسط تک اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ مقامی کونسلز کے ملازمین کا ریکارڈ کا گم ہونا اور تنخواہوں کی ادائیگی گرانٹ کے ذریعے ادا کرنے کا عمل کرپشن کو بڑھاوا اور تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ گرانٹ کے ذریعے تنخواہوں کی ادائیگی نے محکمے میں کرپشن کو متعارف کروایا ہے ،جس کی بیخ کنی لازمی ہے۔اجلاس میں محکمہ بلدیات کے حکام کو سختی سے کہا گیا کہ پہلے مرحلے میں ملازمین کا ریکارڈ اے ڈی ایل ایف اے اور اے ڈی ایل جی کے پاس نہ صرف یکجا بلکہ کمپیوٹرائزڈ کیا جائے اور ہر کونسل کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ملازمین کا مکمل ریکارڈ فراہم کریں۔ اجلاس میں ملازمین کی تنخواہیں اے جی سندھ کی معرفت ادا کرنے کے لئے سیپ سسٹم پر لانے بھی غور کیا گیا ،جس میں محکمہ خزانہ نے بلدیاتی ملازمین کو سیپ سسٹم پر لانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس سسٹم میں اتنی گنجائش نہیں ہے۔ اجلاس میں محکمہ بلدیات کے حکام نے کہا کہ 2012 میں اور اس کے بعد محکمہ بلدیات میں ہونے والی بے دریغ غیر قانونی بھرتیاں ملازمین کی درست تعداد کے تعین ، ریکارڈ کے کمپیوٹرائزڈ کرنے اور تنخواہوں کو سیپ سسٹم پر لانے میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ،جبکہ نیب بھی اس سلسلے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا ۔ ملازمین کے درست تعداد کے تعین کے لئے ضروری ہے کہ نیب حکام اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں ۔ اس موقع پر نیب حکام کا کہنا تھا کہ بلدیاتی اداروں کو جاری ہونے والے فنڈز کے آڈٹ کے لئے ڈائریکٹر لوکل فنڈ آڈٹ سنجیدہ اقدامات کریں ۔درست آڈٹ سے کافی حد تک کرپشن کی روک تام کی جا سکتی ہے۔ اجلاس میں ملازمین کے تبادلے کو چیئرمین کے این او سی سے منسلک کرنے پر بھی غور کیا گیا اور کہا گیا کہ ملازمین کے بے دریغ تبادلوں سے کرپٹ عناصر کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے ،جس کے لئے ضروری ہے کہ کوئی میکنزم بنایا جائے تبادلوں اور تقرریوں کے لئے میعاد کا تعین کیا جائے ۔ اجلاس میں کہا گیا کہ ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود صوبے کے 119 تعلقہ آفیسز کے لئے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز و تعلقہ افسران کا تقرر نہیں کیا گیا ،جس کی وجہ سے کرپشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔کسی بھی ملازم کی تعیناتی کے بعد ایک سال تک تبادلے پر پابندی عائد کی جائے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 16 اور اس سے زیادہ گریڈ کی اسامیوں کی بھرتیوں کے لئے پبلک سروس کمیشن سے رجوع کیا جائے ۔یہ آسامیاں پروموشن کے ذریعے پُر نہ کی جائیں۔اجلاس میں بتایا گیا کہ صرف محکمہ بلدیات میں ڈی ڈی ایل جی کی 80 سے زائد اسامیاں خالی ہیں ۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں نیب حکام نے کہا کہ واضح ہدایات کے باوجود محکمے کی طرف سے نا جانے کن وجوہات کی بنا پر سفارشات مرتب نہیں کی جا رہی ہیں تاہم اب ضروری ہو گیا ہے کہ متحرک ہو اور نیب حکام ہی سفارشات مرتب کریں اور سیکریٹری بلدیات سے اس سلسلے میں مشاورت کی جائے گی۔تاہم ایک ماہ گزرنے کے باوجود نیب حکام نے اجلاس کی نئی تاریخ سے متعلق کوئی لیٹر جاری نہیں کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق نیب حکام سے ہونے والے مذاکرات کے بعد سیکریٹری بلدیات نے صوبائی وزیر بلدیات کو اجلاس سے متعلق بریفنگ دی جنہوں نے محکمہ بلدیات کے ملازمین کی تنخواہوں کو سیپ سسٹم پر لانے کے لئے اقدامات کی منظوری دی اور محکمہ خزانہ کے اعتراضات کے حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ کے سامنے معاملے کو لانے کے لئے کہا، ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے، خالی آسامیوں سے متعلق پبلک سروس کمیشن سے رجوع کرنے اور بلدیاتی کونسلز کے بجٹ کے آڈٹ سے متعلق میکنزم تیار کرنے کی بھی ہدایت کی۔ اس سلسلے میں سیکریٹری بلدیات خالد حیدر شاہ نے کہا کہ محکمے کو درست سمت میں لانے کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے اصلاحات کے بغیر کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔