لندن (رپورٹ :توصیف ممتاز) چین میں حکام نے متعدد پاکستانی افراد کی بیویوں کو زبردستی زیرحراست میں رکھا ہوا ہے اور انہیں محدود ایریا سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے جبکہ ان سے ان کی پاسپورٹ بھی لے لئے گئے ہیں۔نمائندہ ”امت“ کو ملنے والی معلومات کے مطابق 38 ایسے پاکستانی ہیں جن کی بیویوں کو چینی حکام نے زبردستی زیر حراست رکھا ہوا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ ماہ برطانوی ہاؤس آف لارڈ کے تاحیات رکن لارڈ نذیر احمد نے لندن میں چینی سفارت خانے کو ایک لیٹر لکھا تھا اور اس حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور لارڈ نذیر نے اپنے خط میں چینی حکام کو لکھا تھا کہ 38 پاکستانی افراد کی بیویوں کو چین میں زبردستی زیر حراست رکھا گیا ہے۔ جو کہ انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزی ہے اور المناک صورتحال یہ ہے کہ ان خواتین میں سے کچھ خواتین اپنے بچوں سے بھی محروم ہوچکی ہیں۔لارڈ نذیر احمد نے لکھا کہ ان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ان خواتین کو چینی صوبے شن چیانگ کے حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان خواتین کو بنا کسی الزام کے حراست میں نہیں رکھا جاسکتا۔ جبکہ انہیں وکیل تک رسائی بھی نہیں دی جارہی۔ لارڈ نذیر احمد کا کہنا تھا کہ اگر کوئی خوش قسمتی سے ان حراستی مراکز سے رہا بھی ہوجاتا ہے تو اسے پاکستان جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ لارڈ نذیر احمد نے چینی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام پاکستانی افراد کی بیویوں کو رہا کیا جائے اور انہیں ان کے شوہروں کے ساتھ جانے کی اور رہنے کی اجازت دی جائے۔ اس حوالے سے برطانوی اور امریکی میڈیا میں آنے والے رپورٹس کے مطابق کچھ پاکستانی افراد نے چین میں پاکستانی سفارت خانے سے بھی رابطہ کیا ہے تاہم انہیں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔ ایک پاکستانی تاجر مرزا عمران بیگ نے میڈیا کو بتایا کہ ان کی چینی نژاد ایغورمسلمان اہلیہ کو مئی 2017 میں حراستی مرکز لے جایا گیا تھا ۔بعد ازاں اسے چھوڑ دیا گیا تاہم پاسپورٹ ضبط کرلیا گیا ہے اوراسے شہر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ نمائندہ ”امت“ نے اس ضمن میں لندن کے چینی سفارت خانے سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا جبکہ چینی حکام نے لارڈ نذیر احمد کو بھی کوئی جواب نہیں دیا۔