چیف جسٹس نے احتسابی عمل پر مایوسی ظاہر کردی

اسلام آباد(نمائندہ امت/ مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ نے پی ایس او سے 10 روز میں قطر سے کئے گئے ایل این جی معاہدے میں شفافیت و ادارے میں بھرتیوں کے معاملے پر رپورٹ طلب کر لی ہے۔سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ بحث جاری ہے کہ قطر سے معاہدہ میں شفافیت نہیں برتی گئی۔عدالت عظمیٰ نے نیب سے بھی ایل این جی معاہدے کی زیر التوا انکوائریز کی رپورٹ،پی ایس او میں اقربا پروری،سفارش پر بھرتیوں کی رپورٹ مانگ لی ۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے قرار دیا کہ حکومت و عدلیہ دونوں نے احتساب کا نعرہ لگایا لیکن تا حال کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔میں تو آج تک احتساب کے حوالے سے کوئی نتائج نہیں دے سکا۔ انہوں نے جمعہ کو یہ ریمارکس تیل و گیس قیمتوں میں اضافے کیخلاف کیس کی 3رکنی بنچ کے روبرو سماعت کے دوران دیئے۔اس موقع پر وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان پیش ہوئے ،جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ بظاہر ایل این جی معاہدے شفاف نہیں ۔سماعت کے دوران عدالت میں پیٹرولیم قیمتوں کے تعین کا فارمولا پیش کیا گیا ،جس کے مطابق فی لیٹر 27 روپے ٹیکس لیا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے قرار دیا کہ تیل قیمتوں کے تعین میں بدنیتی سامنےآ رہی ہے۔ سارا کام مارکیٹ فورسز کا ہے تو افسران کو بھاری تنخواہ کیوں دی جاتی ہیں؟۔چیف جسٹس نے وفاقی وزیر غلام سرور خان کو آڈٹ رپورٹ پر عمل کر کے رپورٹ دینے کا حکم دیا ۔اس موقع پر نیب نے 3 ہفتے میں انکوائریز کی رپورٹ پیش کرنے کہ مہلت مانگی جسے چیف جسٹس نے مسترد کرتے کہا کہ ہمارے پاس وقت کم ہے،اتنی مہلت نہیں دی جا سکتی ۔قبل ازیں چیف جسٹس نے وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان کو طلب کرتے ہوئےکہا کہ پتہ کرکے بتائیں وفاقی وزیر کتنی دیر میں آسکتے ہیں۔چیف جسٹس نے پاکستان اسٹیٹ آئل کی طرف سے پرائیوٹ وکیل کے پیش ہونے پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں پرائیویٹ وکیل کیوں پیش ہوئے۔انہوں نے پی ایس او کے وکیل سے پوچھا کہ آپ کو وکالت کے لیے کتنی فیس ملی۔وکیل نے جواب دیا کہ میری وکالت کی فیس 15 لاکھ روپے طے ہوئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری اداروں کی حالت پہلے ہی پتلی ہے پھر پرائیوٹ وکیل کی خدمات لے لیتے ہیں، جبکہ پرائیویٹ وکیل کے پیش ہونے سے متعلق جسٹس قاضی فائز صاحب کا فیصلہ موجود ہے۔انہوں نے وکیل سے پوچھا کہ کہاں گئے وہ 37 لاکھ والے ‘سی ای او’ جس پر وکیل پی ایس او نے کہا کہ وہ 31 اگست کو ریٹائر ہو گئے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کھا پی کر چلے گئے اور پی ایس او کو برباد کرکے رکھ دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایم ڈی پی ایس او کو اتنی تنخواہ پر کیوں لگایا گیا، کیا وہ ارسطو تھے۔اس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ بھرتیاں بظاہر ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کی گئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کیوں سابق ایم ڈی پی ایس کو بھرتی کیا تھا اور نیب نے اس ضمن میں اب تک کیا اقدامات کیے ہیں ؟۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پی ایس او میں صرف ایم ڈی کو بھاری تنخواہ پر نہیں لگایا گیا، مزید افسران اس کے علاوہ ہیں۔ جی ایم پی ایس او کی تنخواہ 14 لاکھ روپے ہے، جبکہ جی ایم ایچ آر اور جی ایم فیول کی تنخواہیں 13، 13 لاکھ روپے ہیں۔جسٹس ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سب کو بلا نے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ بتایا جائے کہ پی ایس او میں کتنی مہنگی گاڑیاں ہیں ۔ان کی تفصیل بھی دی جائے ۔ سپریم کورٹ نے پی ایس او میں تعیناتیوں اور ایل این جی منصوبے میں شفافیت کے حوالے سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے معاملے پر اٹارنی جنرل کو ایک ہفتے بعد بریفنگ دینے کی ہدایت کی۔ سماعت کے دوران چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ مختار کاظمی نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر بریفنگ دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ 61 روپے امپورٹ پرائس ہے جس پر اضافی ایک روپے 32 پیسے فی لیٹر چارج لیا جاتا ہے اور اس اضافی پیسوں میں فریٹ اور انشورنس شامل ہے جب کہ پی ایس او ایک روپے 32 پیسے کا پیپرا رولز کےمطابق پابند ہے۔مختار کاظمی نے بتایا کہ 10 روپے 17 پیسے ڈومیسٹک کاسٹ ہے جس میں 3 روپے فریٹ چارج ہے اور یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ ملک بھر میں پیٹرول کی قیمت ایک ہو۔چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے کہا 3 روپے 47 پیسے ڈیلر کمیشن ہے اس کا تعین بھی حکومت کرتی ہے اور 27 روپے ٹیکسز ہیں ۔اس میں کسٹم ڈیوٹی فکس ہے ،جبکہ جی ایس ٹی فی لیٹر کا تعین ایف بی آر کرتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا ٹیکسز کا تعین حکومت کس سطح پر کرتی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اوگرا پہلے قیمت کا تعین کرتی ہے اور منظوری وفاقی کابینہ دیتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ایس او کا قیمت کے تعین سے کوئی تعلق نہیں تو 37 لاکھ روپے ایم ڈی کو تنخواہ کیوں دی، ایم ڈی ارسطو کاری کرتا ہے جو اتنی تنخواہ لے رہا ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ذرا بتائیں پی ایس او والوں کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں، ہر ایک کے پاس فور بائی فور ہوگی اور شاید بلٹ پروف بھی ہوں، ہمیں کفایت شعاری سے چلنا ہے، غیر ترقیاتی اخراجات کیوں بڑھائے گئے ۔اس پر سابق ایم ڈی کو بلائیں۔بعد ازاں سماعت10 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔

Comments (0)
Add Comment