تاجر نے فالودہ فروش کے اکاونٹ میں سوا 2 ارب ڈال دیئے

کراچی (اسٹاف رپورٹر) اورنگی ٹاؤن کے رہائشی فالودہ بیچنے والے عبدالقادر کے نام پر بینک کھاتے میں سوا 2ارب روپے کی رقم ٹریڈ اکاؤنٹ آپریٹ کرنے کی غرض سے ڈالی گئی۔ ایف بی آر میں رجسٹریشن کے لئے اوشین انٹر پرائزز کے نام پر این ٹی این بھی بنایا گیا۔ ایف آئی اے نے بزنس گروپ کا سراغ لگا لیا۔ خطیر رقم کی غیر قانونی منتقلی پر بزنس گروپ کے اعلیٰ عہدیدار کو طلب کرلیا گیا۔ حوالہ کی غرض سے رقم کھاتے میں ڈالے جانے کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی۔اہم ذرائع نے بتایا کہ حوالہ میکرز نے کراچی کے کئی بینکوں میں سیکڑوں بینک کھاتے کھلوا رکھے ہیں، جن کے ذریعے اربوں روپے کا حوالہ کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بینک کے عملے کی مدد بھی حاصل کی جاتی ہے اور انہیں ان غیر قانونی بینک کھاتوں کو آپریٹ کرنے کا معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سوا 2 ارب روپے کی رقم اورنگی ٹاؤن کے ایک فالودہ فروش عبدالقادر کے بینک کھاتے میں کیوں ڈالی گئی، اس سلسلے میں اکاؤنٹ ہولڈر بھی لاعلم ہے۔ اس نئے بینک کھاتے سے متعلق اسے معلوم اس وقت ہوا، جب ایف آئی اے کی جے آئی ٹی کی جانب سے اسے ایف آئی اے طلب کیا گیا۔ ایف آئی اے نے اسے ایک نوٹس کے ذریعے دفتر طلب کیا اور اس سے اس اکاؤنٹ میں موجود رقم کی وضاحت معلوم کرنا چاہی تو عبدالقادر نے بتایا کہ وہ اورنگی ٹاؤن کے سیکٹر 8ایل میں واقع 40گز کے ایک مکان میں اپنے 6بھائیوں کے ہمراہ رہتا ہے اور اس سمیت اس کے تمام بھائی فالودہ فروخت کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ایف آئی اے کو اپنے بیان میں عبدالقادر نے بتایا کہ اس نے کسی زمانے میں سرجانی ٹاؤن میں ایک اکاؤنٹ کھولا تھا اور اس کے علاوہ اسے کسی بینک کھاتے کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔ مذکورہ اکاؤنٹ بھی اس نیت سے کھلوایا تھا کہ اس میں اپنی جمع پونجی جمع کروائی جائے۔ یہ اکاؤنٹ تصویری اکاؤنٹ تھا، جس کے بارے میں بینک حکام سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ ایف آئی اے نے عبدالقادر کو بیان ریکارڈ کرنے کے بعد جانے کی اجازت دے دی۔ اس کے گھر کے باہر پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ عبدالقادر نے بتایا کہ اس نے کبھی انگریزی میں دستخط نہیں کئے اور سوا 2 ارب روپے کے نامعلوم اکاؤنٹ میں اس کے نام کے آگے انگریزی میں دستخط موجود ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ عبدالقادر بھی ان بے نامی کھاتے داروں میں شامل ہے۔ جنہیں ان کے ناموں سے کھولے گئے بینک کھاتوں کا کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ حوالہ میکرز یا کوئی بھی بزنس گروپ اس طرح کے بینک کھاتے کھلوا کر اس میں خطیر رقم رکھتے ہیں، جن کے ذریعے حوالہ کا غیر قانونی کاروبار کیا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی اے نے مذکورہ بینک اکاؤنٹ اوپننگ فارم بھروانے اور اسے سرٹیفائی کرنے والے بینک عملے سے تحقیقات شروع کردی۔ جس میں کسی بزنس گروپ کا سراغ ملا ہے۔ ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ عام طور پر ایسے بینک کھاتوں کے کھاتے داروں کو ان کے نام اور شناختی کارڈ استعمال کرنے پر ادائیگی کی جاتی ہے اور ایسے افراد زیادہ تر اس بزنس گروپ کے ملازمین ہوتے ہیں۔ ان بے نامی کھاتوں کے کھاتے داروں کو کمپنی یا بزنس گروپ کی طرف سے یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ ایف آئی اے یا مرکزی بینک کی جانب سے کوئی مسئلہ سامنے آنے پر انہیں کیس سے نکالنے میں مدد فراہم کی جائے گی، تاہم اس کیس میں کھاتے دار عبدالقادر نے اس کھاتے کو بے نامی قرار دیا ہے۔ ایف آئی اے نے بینک کے عملے سے مذکورہ معاملے کی تفتیش شروع کردی ہے، جس میں 2014 میں بینک کھاتہ کھولنے کے لئے استعمال ہونے والے دستاویزات کی جانچ پڑتال کے بعد تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی اے کو تحقیقات کے دوران عبدالقادر کے نام سے این ٹی این بنے ہونے سے متعلق بھی شواہد ملے ہیں جس میں انکشاف ہوا کہ اکاؤنٹ نمبر 2462-2 کے حامل عبدالقادر کی ایف بی آر میں رجسٹریشن بھی کروائی گئی جہاں کمپنی کا نام اوشین انٹرپرائزز ظاہر کیا گیا۔ رجسٹریشن کا مقصد امپورٹر اور ہول سیل کا درجہ دلانا تھا۔ ایف آئی اے کو تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ این ٹی این کے لیے رجسٹریشن مارچ 2004 میں کرائی اور اپریل میں اس کی سیلز ٹیکس رجسٹریشن بھی حاصل کی گئی، جس کے بعد عبدالقادر کو این ٹی این نمبر 1924059 جاری ہوا۔ ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی اے نے تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کردیا ہے، جس میں ایف بی آر سے بھی ڈیٹا حاصل کیا جائے گا۔

Comments (0)
Add Comment