کراچی(رپورٹ فرحان راجپوت)سندھ کی واحد ڈرگ عدالت غیر فعال ہونے سے جعلی ادویات مافیا کو کھلی چھوٹ مل گئی۔ صوبائی حکومت نے 6 ماہ بعد بھی چیئرمین کا تقرر نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے درجنوں پرانے مقدمات زیر التوا ہیں ،جب کہ 15 سے 20 نئے کیسز تیار ہیں ،جنہیں عدالتی عملہ وصول نہیں کررہا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سربراہ کی عدم موجودگی میں صرف 2 ممبران کارروائی نہیں کرسکتے۔ اس لئے غیر معیاری،غیر قانونی، غیر تصدیق شدہ اور اسمگل شدہ دوائیاں بنانے اور فروخت کرکے انسانی جانوں سے کھیلنے والے ملزمان کے خلاف کارروائی رکی ہوئی ہے۔دوسری جانب عدالتی عملے کا کہنا ہے کہ ڈرگ انسپکٹر نئے کیس داخل نہیں کر رہے ہیں، جب کیس آئیں گے تو کارروائی چلے گی۔ اس حوالے سے چیف ڈرگ انسپکٹر قیصر محمد نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ انہوں نے 15 سے 20 نئے کیس تیار کیے ہوئے ہیں ،جب وہ نئے کیس لے کر عدالت جاتے ہیں تو عدالتی عملہ کیس وصول نہیں کرتا ہے ،جواب دیا جاتا ہے کہ ابھی تک چیئرمین کا تقرر نہیں ہوا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ نئے مقدمات داخل کرنے کے لیے پراسیکیوٹر کو اجلاس میں بلایا جاتا ہے توسرکاری وکیل تعاون نہیں کرتا ہے ،نہ ہی مقدمات کی فائلوں پر دستخط کر رہے ہیں ،جس کے باعث کیس داخل نہیں ہوتے ہیں ،جب پراسیکیوٹڑ جنرل سندھ کو صورت حال سے آگاہ کیا گیا تو پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے بھی معاملات حل کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے ،لہذا ہم اپنا کام کر رہے ہیں،سابق پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ سندھ میں غیر معیاری،غیر قانونی اور اسمگل شدہ دوائیاں فروخت کرنے والی مافیا سرگرم ہے ،یہ وہ مافیا ہے ،جو ٹارگٹ کلر سے زیادہ خطرناک ہے انسانی جانوں سے کھیلنے والے ملزمان کسی رعائت کے مستحق نہیں ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ ہوتا تھا کہ ڈرگ انسپکٹر مافیا کے خلاف کیس داخل کرتے تھے تو ڈرگ کورٹ عموماً ملزمان کو 5 سے10 ہزار روپے جرمانہ کر کے چھوڑ دیتی تھی ،جس سے ملزمان کو فائدہ پہنچتا تھا ،اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ڈرگ انسپکٹروں نے ٹھیک طریقے سے کام کرنا چھوڑ دیا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے ملزمان کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں ۔ان پر جرمانے کرنے کے بجائے انہیں 3 سے7 سال کی قید ہونی چائیے، جس کے لیے موثر پراسیکیویشن ضروری ہے لہذا حکومت کو ایسے ملزمان کے خلاف سختی سے نمٹنا چائیے ،تاکہ کوئی بھی انسانی جانوں سے نہ کھیلے ان کا کہنا تھا ۔گزشتہ دور میں ڈرگ کورٹ سے بری ہونے اور جرمانے کی سزائیں پانے والے ملزمان کے خلاف سوا سو کے قریب اپیلیں ہائی کورٹ میں داخل کی گئیں تھیں ،جن کے جلد فیصلے ہونے چاہئے۔