بلدیہ غربی غیر قانونی افسران کی آماجگاہ نکلی-نیب میں طلبی

کراچی(رپورٹ:نواز بھٹو)نیب کراچی نے محکمہ بلدیات سندھ کی طرف سے بلدیہ غربی کے کرپٹ عناصر کی سرپرستی میں ملوث ہونے کا راز فاش کر دیا۔بلدیہ غربی کے میونسپل کمشنر سمیت گریڈ 19 اور 18 کے تمام افسران کو پرسنل فائلوں سمیت نیب نے طلب کر لیا۔ نیب حکام نے انکشاف کیا ہے کہ قمر الدین شیخ سے کی گئی تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ میونسپل کمشنر بلدیہ غربی غیر قانونی طور پر تعینات ہیں۔ گریڈ 19 اور 18 کے زیادہ افسران کی بھرتیاں، ترقیاں اور تقرریاں غیر قانونی ہیں۔زیادہ تر افسران جعلی دستاویزات اور نوٹیفکیشنز کی بنیاد پر تنخواہیں اور مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ سیکریٹری بلدیات نے میونسپل کمشنر کو ہٹانے کے لئے کارروائی کی تو اہم شخصیت کی مداخلت پر فائل کو دبا دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق بلدیہ غربی غیر قانونی طور پر بھرتی ہونے اور ترقیاں حاصل کرنے والے کرپٹ افسران کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ جن کے سامنے محکمہ بلدیات بھی بے بس ہے۔نیب کراچی نے محکمہ بلدیات سندھ کی طرف قوائد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے بلدیہ غربی میں تعینات کئے گئے 19 اور 18 کے افسران اور میونسپل کمشنر کی حقیقت کا پردہ فاش کر دیا ہے۔غیر قانونی طور پر تعینات افسران نیب کے احکامات کو بھی ہوا میں اڑا رہے ہیں اور ریکارڈ سمیت پیش کرنے سے انکاری ہیں۔ ذرائع کے مطابق نیب حکام کی طرف سے سیکریٹری بلدیات سندھ کو ارسال کئے گئے لیٹر No.NABK2015112624835/CNS-A/QUS/IW-I/6447 میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ حکام کی اجازت سے قمر الدین شیخ اور دیگر کے خلاف جاری تحقیقات کے دوران حیران کن انکشاف ہوئے ہیں۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ بلدیہ غربی کے زیادہ تر افسران تنخواہیں اور الاؤنسز غیر قانونی طور پر وصول کر رہے ہیں۔ ان افسران نے غیر قانونی طور پر جعلی دستاویزات کی بنیاد پر ناصرف خود کو اہم عہدوں پر تعینات کروایا ہوا ہے ،بلکہ ترقیاں بھی حاصل کی ہیں۔ ان افسران کے جوائننگ، رلیونگ آرڈرز، نوٹیفکیشنز، میڈیکل لیٹر، ڈگریاں ، سروس بک تک جعلی ہیں۔ لیٹر میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بلدیہ غربی میں تعینات میونسپل کمشنر آفاق سعید نہ تو سی ایس پی افسر ہیں اور نہ ہی ایس سی یو جی ۔ لیٹر میں کہا گیا ہے کہ بلدیہ غربی کے زیادہ تر افسران کی پرسنل فائلیں گم ہیں ۔ لیٹر میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق میونسپل کمشنر کی پوسٹ پر گریڈ 19 کا ایس سی یو جی رگیولر سروس کیڈر کا آفیسر ہی تعینات ہو سکتا ہے ،جبکہ گریڈ 18 کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن، ڈائریکٹر پارکس، ڈائریکٹر ٹیکسز اور ڈائریکٹر اشتہارات کی پوسٹ پر ایس سی یو جی کیڈر کا آفیسر تعینات ہو سکتا ہے ۔ لیکن نیب تحقیقات کے دوران یہ معلوم ہوا ہے کہ ان اہم آسامیوں پر بھی جعلسازی کے ذریعے ترقیاں حاصل کرنے والے افسران تعینات ہیں ،جس کہ وجہ سے کرپشن کو تقویت مل رہی ہے۔ ان آسامیوں پر تعیناتی کے حوالے سے 12 اپریل 2016 کو جاری ہونے والے لیٹر No:SLGB/SCUG/AO/Admin-I/SOE2016/2090میں مکمل طور پر قواعد و ضوابط وضع کئے گئے ہیں تاہم محکمہ بلدیات حکومت سندھ ان پر عملدرآمد کروانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔محکمہ بلدیات حکومت سندھ کی طرف سے ایسے افسران تعینات کئے جاتے ہیں جو ان قواعد و ضوابط پر پورے نہیں اترتے ۔ لیٹر میں سیکریٹری بلدیات سے کہا گیا ہے کہ وہ چیئرمین بلدیہ غربی کو ہدایات جاری کریں کہ وہ میونسپل کمشنر بلدیہ غربی آفاق سعید اور تمام گریڈ 19 اور 18 کے افسران کو نیب حکام کے روبرو پیش ہونے کو یقنی بنائیں۔ لیٹر میں مزید کہا گیا ہے کہ ان تمام افسران کو پابند کیا جائے کہ وہ ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب محمد طاہر کے روبرو 4 اکتوبر کو اپنے مکمل سروس ریکارڈ، دستاویزات اور سروس بک کے ساتھ دو پہر 2 بجے پیش ہوں۔ لیٹر میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر متعلقہ حکام نے اس پر عمل نہیں کیا تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل نیب حکام نے بلدیہ غربی کے ان افسران کو 26 ستمبر کو بھی طلب کیا تھا ،لیکن یہ پیش نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کا ریکارڈ پیش کیا گیا تھا۔ محکمہ بلدیات کے ذرائع کے مطابق نیب حکام کی طرف سے ان افسران کے پیش ہونے سے تعلق جب دوسرا لیٹر موصول ہوا تو سیکریٹری بلدیات نے چیئرمین بلدیہ غربی کو یکم اکتوبر کو لیٹر No: SO-V(LG)/9-06/2018جاری کیا جو سیکریٹری بلدیات نے اسپیشل میسینجر کے ذریعے بھجوایا ،جس میں کہا گیا ہے کہ نیب حکام کی طرف سے 25 ستمبر کو موصول ہونے والے لیٹر کی روشنی میں میونسپل کمشنر آفاق سعید سمیت گریڈ 19 سے 18 تک کے تمام افسران کے پیش ہونے کو یقینی بنایا جائے۔ لیٹر کے آخر میں کہا گیا ہے کہ اس کو لیٹر انتہائی اہم تصور کیا جائے۔ محکمہ بلدیات کے ذرائع کے مطابق سیکریٹری بلدیات خالد حیدر شاہ نے میونسپل کمشنر بلدیہ غربی کی غیر قانونی تعیناتی کے خلاف کروائی کرتے ہوئے ان کو ہٹانے کے احکامات جاری کئے تھے اور اس سلسلے میں لیٹر بھی جاری کیا گیا تھا تاہم ایک اہم شخصیت کی مداخلت پر تمام کاروائی کو روک دیا گیا۔

Comments (0)
Add Comment