لیاری یونیورسٹی میں اعلیٰ عہدوں پر غیر قانونی بھرتیوں کی تیاری

کراچی(رپورٹ:عظمت علی رحمانی)شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری میں ایک بار پھر من پسند افراد کو بھرتی کرنے کی تیاری کرلی گئی۔متعلقہ اتھارٹی کی اجازت کے بغیر غیر قانونی طور پر گریڈ 20 کے رجسٹرار ، کنٹرولر سمیت گریڈ17و 18 کے 15 افسران بھرتی کئے جائیں گے۔4 سال سے یونیورسٹی میں مستقل رجسٹراراور ناظم امتحانات تعینات نہیں ہیں، جب کہ 3 ماہ بعد ریٹائرڈٖ ہوجانے والے وائس چانسلر قانونی طور پر کوئی بھی بھرتی نہیں کرسکتے۔بھرتیوں کے سلسلے میں اسکروٹنی کمیٹی بھی متنازع ہے، کیونکہ کمیٹی میں موجود افسران ، اعلیٰ گریڈ پر بھرتی کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ ‘‘امت ’’کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری میں اسامیاں مکمل کرنے کے لئے ادھورا اور مشکوک اشتہار جاری کیا گیا تھا، اسامیوں کے لئے ضروری کوائف اشتہار کے بجائے یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر درج کی گئی ہیں جو مکمل طور پر غیر قانونی و مشکوک عمل ہے۔ یونیورسٹی میں مجموعی طور پر 15اسامیاں ظاہر کی گئی تھیں،جن میں گریڈ 20کے رجسٹرار ،ناظم امتحانات،گریڈ 18کے لیکچررز میں فارمیسی، بزنس ایڈمنسٹریشن ،سی ایس ،آئی ٹی، انگلش،کامرس ،ریاضی ،الیکٹرونکس ،آئی آر کے علاوہ گریڈ 17کے اسسٹنٹ انجینئرز میں الیکٹریکل ،سول اور مکینکل کے علاوہ گریڈ 17کے اسٹور پرچیز آفیسر اور اسٹوڈنٹ ویلفیئر آفیسر شامل ہیں۔مذکورہ اسامیوں کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ نے درخواستیں جمع کرلی ہیں ،جبکہ اب من پسند افسران کو کھپانے کے لئے کاغذی کارروائی کی جارہی ہے۔ یونیورسٹی ذرائع کے مطابق ان پوسٹوں میں وائس چانسلر کے قریبی رشتہ داروں کو نوازنے سمیت اسٹور کیپر کی اسامی پر پی پی کے سینیٹر کے قریبی عزیز معشوق چانڈیو،اسسٹنٹ انجینئر سول کی اسامی پر شہزاد احمد شیخ ،اسسٹنٹ انجنیئر الیکٹریکل کی اسامی پر شاہد چانڈیو کو بھرتی کرنے کی تیاری کی گئی تھی، جس کے بعد مشکوک اشتہار پر بعض افسران کی جانب سے سوالات اٹھائے گئے ، جس کے بعد اخبار میں دوبارہ اشتہار شائع کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ فی الوقت اسٹوڈنٹ ویلفیئر آفیسر، اسٹور کیپر اور اسسٹنٹ انجنیئر سول کی اسامی پر بھرتی روک دی گئی ہے ، جبکہ بقیہ اسامیوں پر بھرتی ہوگی۔ اس کے علاوہ کسی بھی اسامی کے لئے سیکنڈ ڈویژن میں ماسٹر اور بلوچی زبان پر عبور کی شرط نہیں رکھی گئی ہے۔اس کے علاوہ مذکورہ بھرتیوں کے لئے ایک اور انوکھی شرط یہ لگائی گئی ہے کہ بھرتی کے خواہشمند افراد کو اردو کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان پر بھی عبور ہونے کی صورت میں ترجیح دی جائے گی۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یونیورسٹی میں قائم مقام کوئی بھی رجسٹرار موجود نہیں ہے جبکہ اشتہار قائم مقام رجسٹرار کے نام سے جاری کیا گیا ہے ۔معلوم رہے کہ کسی بھی سرکاری ادارے میں بھرتیوں کے لئے متعلقہ شعبہ کا سربراہ رجسٹرار کے نام اپنے شعبہ کی خالی اسامی کی درخواست لکھتا ہے، جس کے بعد رجسٹرار وائس چانسلر کو لکھتا ہے اور وائس چانسلر مجاز اتھارٹی سے اجازت سے قبل اس کو سنڈیکیٹ میں لے کر جاتا ہے ، جہاں سے اسامیوں کو مکمل کرنے کی منظوری دی جاتی ہے اور اس کے بعد اسامیوں کا اشتہار جاری کیا جاتا ہے، جب کہ لیاری یونیورسٹی کی انتظامیہ نے کسی بھی طریقہ کار کو بروئے کار لائے بغیر بھرتیوں کا اشتہار جاری کیا ہے اور اشتہار بھی مبہم طریقے سے دیا گیا ہے ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس ،سندھ ٹیسٹنگ سروس سمیت کسی بھی دیگر ٹیسٹنگ سروس سے ٹیسٹ لینے کی بھی شرط عائد نہیں کی گئی ہے۔ معلوم رہے کہ وائس چانسلر گریڈ 18سے اوپر کے افسران کی بھرتی کرنے کے اہل نہیں، جبکہ گریڈ 17تک کی اسامیوں پر بھرتی متعلقہ مجاز اتھارٹی سے اجازت کے بعد کر سکتے ہیں، تاہم وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ کی مدت ملازمت 3ماہ بعد ختم ہو جائے گی ، جبکہ ریٹائرمنٹ سے 6ماہ قبل بھرتی نہیں کی جاسکتی ہے ۔مذکورہ اسامیوں کا اشتہار جاری کرنے والی اسسٹنٹ رجسٹرار محسنہ سکندر ہیں،جس نے اشتہار جاری کرتے ہوئے خود کو قائم مقام رجسٹرار ظاہر کیا ہے ،جبکہ اسسٹنٹ رجسٹرار محسنہ سکندر کو قائم مقام رجسٹرار بنائے جانے کا کوئی بھی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا، جس کے باوجود انہوں نے اشتہار قائم مقام رجسٹرار کے نام سے خود جاری کیا ہے ۔مذکورہ خاتون کو نوازنے کے لئے گزشتہ 4برس سے لیاری یونیورسٹی میں مستقل رجسٹرار اور ناظم امتحانات تعینات نہیں کئے جاسکے ہیں، جس کے بغیر ہی تمام معاملات چلائے جارہے ہیں۔محسنہ سکندر کا شوہر عبدالرشید ملاح اسی یونیورسٹی میں ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس تعینات ہے ،جبکہ عبدالرشید ملاح کا اصل عہدہ اکاؤنٹنٹ ہے، جس کو نوازنے کے لئے ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس تعینات کیا گیا ہے۔حیرت انگیز طور گریڈ 20کے رجسٹرار اور ناظم امتحانات کی اسامیوں کے لئے آنے والی درخواستوں کے بعد بھرتی کے لئے ایک اسکروٹنی کمیٹی بنائی گئی ہے جس کے نوٹیکیشن نمبر 3676کے مطابق فیکلٹی آف فارمیسی کے پروفیسر ڈاکٹر وسیم الدین ،ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن کی انچارج ڈاکٹر صفیہ نیازی اور قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس عبدالرشید ملاح پر مشتمل کمیٹی رجسٹرار اور ناظم امتحانات کی بھرتی کا حتمی فیصلہ کرے گی۔یونیورسٹی ایکٹ اور یونیورسٹی کے بھرتی کے ایس او پی کے مطابق گریڈ 18کےافسران گریڈ 20کے افسران کی بھرتی کا فیصلہ کر ہی نہیں سکتے ہیں۔اس کمیٹی میں شامل ڈاکٹر وسیم الدین کا بطور ڈین لیٹر جاری کرکے ان کی تنخواہ ڈھائی لاکھ روپے مقرر کردی گئی، جب کہ موصوف ریٹائرڈ افسر ہیں اور ریٹائرڈ افسر کسی بھی دوسرے ادارے میں کلیدی عہدے پر تعینات نہیں کئے جاسکتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض افسران نے وسیم الدین کے خلاف عدالت سے رجوع کررکھا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈین ڈاکٹر وسیم الدین اور صفیہ نیازی کو ہر کمیٹی میں شامل کیا جاتا ہے تاکہ ان سے من پسند فیصلے لیے جاسکیں۔ معلوم رہے کہ سندھ اسمبلی سے نئے پاس ہونے والے یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق کسی بھی سرکاری جامعہ کے کلیہ میں ڈین بھرتی کرنے کا اختیار وزیراعلی سندھ کا استحقاق ہے، جس کی اجازت لئے بغیر ہی وائس چانسلر نے ڈین بھرتی کیا ہے ۔یونیورسٹی میں ایک ملازم ڈپلومہ ہولڈر ہے جو سب انجنیئر کے بجائے 4برس سے اسسٹنٹ انجنیئر کے عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔شہزاد شیخ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ٹھیکیداروں سے کمیشن لیکر اسسٹنٹ رجسٹرار محسنہ سکندر تک پہنچاتا ہے ، جو اپنے شوہر کے ذریعے وائس چانسلر تک رقم پہنچاتی ہے۔غلام محمد جتوئی نے اسسٹنٹ گریڈ 17کی اسامی کے لئے ٹیسٹ و انٹرویو دیا تھا، جس کے بعد ان کو گریڈ 18میں ایگزیکٹو انجنیئر کے عہدے پر رکھا گیا اور سیٹ پر آنے کے ساتھ ہی غلام محمد جتوئی کے دو کزن شعیب جتوئی اور عمران جتوئی کو ٹھیکے جاری کرنا شروع کردیئے ہیں۔گزشتہ 6 بر س سے یونیورسٹی میں مخصوص کمپنیوں کو ہی ٹھیکے دیئے جاتے ہیں ۔غلام محمد جتوئی کی اینٹی کرپشن میں اس حوالے سے انکوائری بھی چل رہی ہے ۔

Comments (0)
Add Comment