سپریم کورٹ-کراچی میں سرکاری مکانات چھڑانے کیلئے پولیس و رینجرز تعاون کے پابند

کراچی/اسلام آباد(اسٹاف رپورٹر/ نمائندہ خصوصی) سپریم کورٹ نے کراچی میں سرکاری مکانات چھڑانے کیلئے پولیس و رینجرز کو وفاقی وزار ت ہاؤسنگ سے تعاون کا پابند کردیا جب کہ اے جی پی آر سے کہا ہے کہ قابضین کی پنشن اور تنخواہوں سے واجبات وصول کئے جائیں۔ادھر پی آئی بی کالونی میں جمعرات کے روز پریس کوارٹرز خالی کرانے کی کوشش ایک بار پھر ناکام ہوگئی۔ اطلاعات کے مطابق پولیس کی بھاری نفری پنجاب کے عدالتی احکام لے کر پہنچی تھی جس کا پتہ چلنے پر ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار بھی آگئے ۔تجاوزات ہٹانے اور کوارٹرز خالی کروانے پر علاقہ مکین سراپا احتجاج ہو گئے اور کہا کہ کورٹ سے جاری آرڈر پنجاب کے لئے ہیں پولیس بلا وجہ ان آرڈرز کو ہم پر لاگو کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ہماری زندگی ان کوارٹرز میں گزر گئی اور اب تک ہمارے واجبات تک ادا نہیں کئے گئے، علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ فاروق ستار نے کورٹ آرڈرز پر درج پنجاب کا نام پولیس کو دکھایا جس پر نفری واپس لوٹ گئی تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ تکنیکی وجوہات کے باعث واپس جا رہے ہیں اگلے ہفتے پھر آپریشن کیا جائے گا۔قبل ازیں اسلام آبادمیں کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کراچی میں وفاقی گھروں پر تین اشاریہ پانچ ارب روپےواجبات ادا ہیں، ایک مکمل مافیانے وفاق کے گھروں پر قبضہ کیا ہے، سیکورٹی کے بغیر 4268گھروں کو غیر قانونی قابضین سے خالی نہیں کرا سکتے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کو ہدایت کی کہ غیر قانونی گھروں کا قبضہ ختم کرنے کیلئے اسٹیٹ آفس کو سیکورٹی فراہم کرے۔عدالت نے اے جی پی آر کو قابضین کی پنشن، تنخواہ سے مکانوں کے کرائے کی مد میں واجبات وصول کرنے کا حکم بھی دیااور کہا کہ وفاقی حکومت کے کراچی میں مکانات فوری خالی کرا کے رپورٹ دی جائے ۔وزارت ہاوٴسنگ کے سیکرٹری نے بتایا کہ اسلام آباد میں 563غیر قانونی قبضے تھے، قبضے والے 386 سرکاری گھر خالی کروا لیے ہیں۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ باقی گھروں کو کب تک خالی کروا لیا جائے گا۔؟ سیکرٹری نے جواب دیا کہ آپریشن جاری ہے 7-8 گھر روزانہ کی بنیاد پر خالی کروا رہے ہیں، 49کیسز اب بھی ہائی کورٹ میں زیر التواء دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان مقدمات کی فہرست سپریم کورٹ کو فراہم کریں، حکم دیں گے کہ ان مقدمات کو مخصوص مدت میں ختم کیا جائے۔ بعد ازاں عدالت نے متعلقہ ہائیکورٹس کو مکانات قبضوں کے تمام زیر التواء مقدمات پندرہ دن میں نمٹانے کیلئے کہا۔

Comments (0)
Add Comment