لاہور میں بیشتر قبضہ گروپ محفوظ-کارروائی منشابم تک محدود

لاہور(رپورٹ: نجم الحسن عارف) لاہور میں تجاوزات کیخلاف آپریشن میں تیزی آگئی مگر قبضہ گروپوں کیخلاف حقیقی اقدامات میں ابھی وقت لگے گا۔اب تک عملاً صرف جوہر ٹائون کے علاقے میں بدنام زمانہ قبضہ گروپ منشا بم کے سرغنہ پلازے اور فرنیچر کی دکانوں کیخلاف ہی بڑی کارروائی کی گئی تاہم اس میں بھی گروپ کا سرغنہ اس کا بیٹا اور دیگر اہم کارندوں کو بچا لیا گیا۔ قبضہ عناصر کے حکومتی اور سیاسی سطحوں پر گہرے مراسم کے باعث انتظامیہ نے اراضی چھڑانے اور اصل مالکان کے حوالے کرنے کی رفتار تیز کرنے کی بجائے تاجروں اور عام لوگوں کی تجاوزات پر توجہ مرکوز کرلی۔ جوہر ٹائون میں بھی صرف 39نجی پلاٹوں کو واگزار کرایا جاسکا۔ یوں 34 سرکاری پلاٹوں سمیت 73پلاٹ واگزار کرائے جاسکے۔ واضح رہے صوبائی دارالحکومت میں ایک سو اسی سے زائد ایسے سرگرم قبضہ عناصر اور قبضہ گروپوں کے بارے میں پولیس نے دو سال قبل حکومت کو رپورٹ کیا تھا کہ انہیں گرفتار کرنے کی اجازت دیدی جائے کیونکہ یہ عناصر بہت بااثر ہیں۔ حتیٰ کہ شہر میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں لیکن ابھی تک پولیس کی یہ درخواست زیر غور نہیں آسکی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے عبدالعلیم خان کا نام واپس لئے جانے کی ایک بڑی وجہ ان کا قبضہ گروپوں کے ساتھ قریبی تعلق اور نیب کیسز بنے تھے لیکن بعدازاں ان کو سینئر وزیر کے طور پر لئے جانے سے ایک مرتبہ پھر ایسے عناصر کو بالواسطہ سہارا مل گیا۔ واضح رہے کہ ہائوسنگ کے صوبائی وزیر میاں محمود الرشید کے قریبی عزیز مصطفی رشید کا نام بھی ان کے مخالفین اسی طرح کی سرگرمیوں کیلئے لیتے رہے ہیں۔ دستیاب رپورٹس کے مطابق ایسے قبضہ عناصر کی تعداد کنٹونمنٹ ڈویژن میں باقی ڈویژنز کے مقابلے میں کم از کم دو گنا ہے۔دوسرے نمبر پر سٹی ویژن ہے جہاں قبضہ عناصر کی تعداد تین درجن جب کہ ماڈل ٹائون ڈویژن میں 2درجن کے قریب ہے۔سرکاری اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خوب اچھی طرح آگاہ ہیں کہ گرین ٹائون ایسے قبضہ عناصر کی اہم آماجگاہ ہے اور اسمیں ایل ڈی کے افسران اہلکار بھی ان کی مدد کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ انہی میں سے ایک عدالت کو مطلوب منشا بم نامی قبضہ گروپ ہے جسے عدالتی حکم کے باوجود تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ اب اسے دس اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ منشا بم، اس کے بیٹے اور ساتھی روپوش ہوچکے ہیں۔لیکن بجائے اس کے کہ قبضہ گروپوں کے بارے میں دفتری فائلوں اور پولیس رپورٹس کی بنیاد پر شہر بھر کے دیگر قبضہ عناصر کی گرفتاری کیلئے سرگرمی دکھاتی۔ حکومت نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے آپریشن کا رخ محض مارکیٹوں میں تعمیر تجاوزات اور غیر منظور شد سائن بورڈز کو اتارنے تک محدود کردیا ہے۔شہر میں جمعرات کے روز بھی جگہ جگہ سائن بورڈز اتارے اور اضافی طور پر تعمیر کردہ شیڈز اور چھجےتو گرائے گئے لیکن بڑے اور بااثر قبضہ گروپوں کیخلاف کوئی بامعنی کارروائی سامنے نہ آسکی۔ ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت لاہور سے تعلق رکھنے الے اہم ترین وزیر سمیت بعض دیگر پارٹی رہنماؤں کو زیر بحث لانے سے گریز کے ساتھ ارکان اسمبلی کے حلقوں میں ان کی برادری کے بھاری ووٹ بینک کی مخالفت سے بھی بچنا چاہتی ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ قبضہ عناصر نہ صرف سیاسی و انتخابی حوالے سے شہری سیاست میں پس پردہ رہ کر اہم کردار کے حامل ہوچکے ہیں بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں بشمول حکمران جماعت کی طرف سے انتخابی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شہر میں بڑے قبضہ عناصر نے نہ صرف اپنے اپنے علاقے میں ڈیرے قائم کررکھے ہیں بلکہ اپنے علاقوں میں آنے جانے والوں پر نظر رکھنے کیلئے اپنے ڈیروں کے آس پاس سی سی ٹی وی کیمرے لگا رکھے ہیں یا اپنا نجی مخبری کا نظام قائم کررکھا ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ایسے ہی ایک گروپ نے صوبائی حکومت میں شامل ایک اہم شخصیت کی ہائوسنگ سوسائٹی کو تحفظ دینے کیلئے خدمات پیش کی تھیں۔

Comments (0)
Add Comment