اسلام آباد(رپورٹ اخترصدیقی ) سپریم کورٹ میں ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل تبادلے سے متعلق جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکوائری افسرمہر خالق داد لک نے کہاہے کہ پولیس افسر کا تبادلہ اثر و رسوخ اوردباؤپرکیا گیا‘وزیراعلیٰ پنجاب نے انہیں ہٹانے کا حکم دیا‘اس معاملے میں آئی جی پنجاب کلیم امام کا کردار ربڑ اسٹمپ کا تھا ‘ کلیم امام شاہ سے زیادہ شاہ کے دفادار نکلے۔ روزنامہ امت کے پاس موجودرپورٹ کے مطابق انکوائری افسرنے سابق ڈی پی او رضوان گوندل کے بیان کودرست قرار دیاہے اور کہاہے کہ اس کے بیان کی تائیدآرپی اواور ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرنے بھی کی ساتھ ساتھ سی ایم سٹاف افسراور دیگر کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کے ریکارڈسے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ڈی پی اوکاتبادلہ رات گئے کسی سمری کی منظوری کے بغیر کیاگیااور صرف زبانی احکامات پر ہی کیا گیا۔بعدازاں منظورکی گئی سمری میں بھی بعض الفاظ کومٹانے کی کوشش کی گئی ہے ۔سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے حوالے سے نیکٹا کے افسر مہر خالق داد لک نے سپریم کورٹ کے حکم پر کی گئی انکوائری میں بتایا ہے کہ پولیس افسر کے تبادلے میں حکومتی مداخلت سامنے آئی ہے وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر میں ایک غیر متعلقہ شخص احسن گجر نے نہ صرف پولیس افسر کی تذلیل کی بلکہ اسے دھمکیاں بھی دی اس حوالے سے ڈی آئی جی عظیم ارشد ،رضوان گوندل ،سابق آئی جی کلیم امام ،خاور مانیکا اور دیگر افراد بیانات حلفی لیے گئے اور ان پر جراح بھی کی گئی ڈی آئی جی عظیم ارشد نے ڈی پی او رضوان گوندل کو وٹس ایپ کال کی اور اسے بتایا کہ وہ اس جگہ جائے جہاں مانیکا فیملی موجود تھی جو پیغام بھیجا گیا اس میں انہوں نے لکھا رضوان صاحب میں نے اپنے دوست کو کہ دیا ہے آپ اپنے کسی عقل مند ڈی ایس پی کو مسئلہ حل کرنے کے لیے بھیجیں مقصد کہنے کا یہ تھا کہ وہ ڈیرے پے جائیں اور مانیکا فیملی سے بات کریں آر پی او جو اس سارے معاملے کا گواہ ہے اس نے بھی جراح میں یہ تصدیق کی ہے کہ ڈی ٰ پی او کو ڈیرے پر جانے کے لیے کہا گیا تھا احسن جمیل گجر نے بھی جراح کے دوران بعض نکات اور بیان بارے کچھ تبدیلی کے ساتھ تصدیق کی تاہم اس کا یہ کہنا تھا معاملے کی سنگینی کی وجہ سے اس معاملے کو حل کروانا چاہتے تھے انکوائری افسر نے لکھا احس جمیل کے دو بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس نے ہتک امیز رویہ اختیار کیا اس کے خلاف فوجداری کاروائی کی جائے گی تاہم یہ قانونی بحث ہے فوجداری نوعیت کا معاملہ پی پی سی کے سیکشن 503میں بتایا گیا ہے اس طرح کے الزامات کا دہرایا جانا دھمکی بھی ہو سکتا ہے جس کا مقصد کسی شخص کو زخمی کرنا اس کی عزت پر حرف لانا یا کوئی جائیداد کا معاملہ ہو تاکہ دباؤ ڈال کر غیر قانونی کام کو کرایا جائے میرے خیال میں احسن کا پہلا بیان کوئی دھمکی نہیں ہے تاہم دوسرے بیان کا احتیاط سے جائزہ لینا ضروری ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اگر اس طرح کی چیزیں دوبارہ ہوئیں تو سب کو بھگتنا ہو گا بادی النظر میں تمام کو بھگتنا ہو گا ایک دھمکی ہے اس نے خود کو بھی اس میں شامل رکھا ہے اب اگر ہم اس دھمکی کے مقاصد کا جائزہ لیں تو یہ جو کہا گیا آئندہ ایسی چیزیں نہ ہوں یہ ایک خاص سوال ہے کہ وہ کن چیزوں کا حوالہ دے رہا ہے مخلتف حالتوں میں دئیے گئے بیانات کا جائزہ مختلف انداز میں لیا جاتا ہے اگر تو اس کا اشارہ پہلے حادثہ کی طرف تھا تو جب خاندان دربار کے راستے میں تھا تو پولیس کو خبردار کر رہے تھے کہ اب مانیکا خاند ان کے معاملات میں مداخلت نہ کریں اور پولیس کو اس مداخلت سے روکیں دوسری طرف اگر وہ دوسرے واقعے جس میں موقع پر گاڑی کو روکا گیا تھا کی بات کر رہے تھے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ وہ پولیس کو قانون کے تحت دی گئی ڈیوٹی اور فرائض کی بجاآوری سے روکنا چاہتے تھے ذہنی سطح کو دیکھتے ہوئے اس سے جو واقعات سامنے آتے ہیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ بچوں کے نام نہاد گارڈین کی حیثیت سے کیا یہ بھی محسوس ہوتا ہے اس کی اس طرح کی مداخلت کچھ زیادہ ہی ذایتانیہ تھی یہ میرا اندازہ صورت حال کے مطابق سوچ ہے تاہم اس بارے قانونی ماہرین کی رائے کی روشنی میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے اب اگر ہم آئی جی کلیم امام کے بیان کی جانب جائیں کہ انہوں نے کسی اندرونی دباو کی بجائے ذاتی طور پر ڈی پی او کا تبادلہ کیاتھا اگر ہم ان کا یہ موقف تسلیم کر لیں عام حالات میں اس طرح کے معاملات میں ایک سمری وزیر اعلیٰ کو منظوری کے لیے بھجوائی جاتی ہے ایسا صرف اہم مقدمات میں اعلیٰ ٰ حکام کی جانب سے اجازت کے لیے اختیار کیا جاتا ہے اس کیس میں جان بوجھ کر کوئی سمری نہیں بھجوائی گئی ۔اگر کوئی آڈر نہیں دئیے گئے تھے اور آئی جی نے ایسا ذاتی طور پر کیا تھا تو پھر انھیں یہ بتانا پڑے گا ایسی کیا ہنگامی حالت ہو گئی تھی کہ آدھی رات کو زبانی طور پر تبادلے کے احکامات بھجوائے گئے اور اگلے دن سی پی او کو رپورٹ کرنے کو بھی کہا گیا دوسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ انھیں کہیں سے ہدایات دی گئی تھی کہ اسے کسی دوسری جگہ شفٹ کریں اور ایسا دی گئی ڈیڈ لائن کے مطابق کیا جائے۔ حالات واضح کر رہے ہیں کہ آئی جی نے یہ سب ہدایات کی روشنی میں کیا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ تبادلے کے احکامات 27جولائی کو جاری ہوئے مگر اس کی منظوری کی سمری ایک ہفتہ بعد یعنی 4 ستمبر کو بھجوائی گئی میں یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کلیم امام نے کئی پوسٹنگ آڈر میں اپنے بیان دینے سے دو دن قبل آفس سٹاف کے ذریعے بھجوائے۔ انہوں نے ایسا دو مقاصد کے لیے کیا ایک طرف وہ یہ واضح کرنا چاہ رہے تھے کہ پوسٹنگ آڈر دفتری اوقات میں بھجوانا عام طریقہ کار ہے اور ڈی پی او جیسے افسران بارے زبانی احکامات کا بھجوایا جانا سی یم کی منظوری سے ہی ہوتا ہے اگر ہم ان دو باتوں کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ صرف احکامت کی فہرست ہے اور یہ اوریجنل آڈر نہیں ہے ۔ایک بات واضح ہے کہ آئی جی نے شاہ سے زیادہ شاہ کے تابعدار ہونے کا ثبوت دیا ۔انکوائری افسر نے مزید لکھا ہے کہ 24جولائی کو آر پی اور ڈی پی کا وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک ساتھ پایا جانا قابل اعتراض ہے ایسا واقعہ نہیں ہونا چاہیے تھا جہاں تک رات کے ایک بجے ڈی پی او تبادلہ کیے جانے کی بات ہے جس کے بارے میں رضوان گوندل نے اپنے بیان اور بعدازاں جراح میں بتایا ہے کہ 26 جولائی رات 11بج کر 50منٹ پر چیف منسٹر کے سٹاف افسر نے پہلے میسج کیا اور بعدازاں تبادلے بارے ان سے بات کی بعد میں انہوں نے اپنا فون سی ایم کو دیا جو ان کے پاس ہی بیٹھے تھے کہا گیا کہ 9بجے سے پہلے پہلے وہ اپنا چارج چھوڑ دیں اس بارے آئی جی کہ دیا گیا ہے انہیں آپریٹر کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ وہ ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر سے بات کر لیں اس نے ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر سے آدھی رات کو بات کی تبادلے اور سی پی او کو رپورٹ کرنے کا پیغام پہنچایا گیا ۔انہوں نے جب آر پی او سے بات کی اور وہ اس کے تبادلے پر بڑا حیران ہوا اس نے ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر سے بات کی اور ان سے کہا کہ آئی جی سے اس معاملے پر بات کریں ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر نے بتایا حکم پر عمل درآمد کر دیا گیا ہے 27جولائی کو ٹھیک 9بجے صبح انھیں سی ایم کے سٹا ف افسر کی جانب سے کال موصول ہوئی اور انہوں نے مجھ سے اس بات کی تصدیق کی کہ کیا میں نے ڈی پی او کا چارج چھوڑ دیا ہے یا نہیں میں نے پی ایس او کو بتایا کہ میں نے چارج چھوڑ دیا ہے حقائق جو ہمارے سامنے آئے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پی ایس او نے آئی جی کلیم امام سے اس کی رہائش گاہ پر رات 11بج کر 50منٹ پر بات کی 11بج کر 52منٹ پر ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر کو کال کی گئی اس کے بعد سابق ڈی پی او پاکپتن ،ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر اور آر پی او کے درمیان کالیں ہوئیں ان کالوں کے ڈیٹا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پی ایس او نے سابق ڈی پی او سے صبح 9بجے بات کی اور یہ ڈی پی او کی بات درست ثابت ہوتی ہے۔ ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انھیں 26جولائی کو آئی جی کی جانب سے رات 10بجے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کی بابت ٹیلی فونک آڈر موصول ہوئے ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کی سالگرہ کے فنکشن میں مصروف ہونے کی وجہ سے وقت پر آئی جی کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کر سکا رات 12بجے انھیں آئی جی کی دوسری کال موصول ہوئی جس میں انھیں کہا گیا کہ آپ ڈی پی او تبادلے کا بتا دیں اور ان سے کہیں کہ کل سی پی او کو رپورٹ کریں احکامات پر عمل کریں آئی جی کی جانب سے ہنگامی طور پر ایسا کیا جانا ڈی پی او کے بیان کو درست ثابت کرتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ پی ایس او نے آئی جی کو ان کو عہدہ سے ہٹانے کے احکامات پہنچائے بات چیت کا وقت بھی ایک ہے آر پی او نے بھی ڈی پی او پاکپتن کے بیان کی تصدیق کی ہے جس میں اس نے بتایا ہے کہ ڈی پی او نے 26اور 27کی درمیانی رات زبانی احکامات کے تحت اپنے تبادلے بارے بتایا آر پی او نے ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر سے بات کی کہ وہ آئی جی درخواست کریں کہ جب تک انکوائری مکمل نہیں ہوتی انھیں نہ ہٹایا جائے تاہم اسے حکم پر عمل درآمد کا کہا گیا پی ایس او نے بھی اپنے اس بیان کی تصدیق کی ہے کہ اس نے ڈی پی او کو صبح 9بجے سی پی او کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا یہ بھی خاص طور پر واضح کرتا چلوں کہ اگر وزیر اعلیٰ آفس میں بلوائی جانے والی میٹنگ مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے تھی اور آر پی او کو یہ کہنا تھا کہ وہ معاملے کو ذاتی طور پر دیکھے تو پھر یہ اچانک تبادلہ اور انکوائری کرنے کے احکامات حیران کن ہیں آر پی او خود بھی حیران تھا یہ پہلو بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ آئی جی نے افسر کی معطلی کے لیے جو سفارشات جاری کیں اس میں ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ڈی پی او کے خلاف 5ستمبر محکمانہ انکوائری نااہلی اور اپنے فرائض میں غفلت کی بنیاد پر کی جا رہی ہے اس میں سے ایک الزام یہ بھی تھا کہ اس نے وقت پر ایکشن کیوں نہیں لیا مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی ایک طرف تو ڈی پی او نے متاثرہ پارٹی کو اگلے دن ملنے کے لیے کہا تا کہ مسائل کے لیے حل کیا جائے اور انھیں چائے کی دعوت بھی دی گئی تاہم متاثرہ پارٹی نے ڈی پی او ہاؤس آنے سے انکار کیا جب متاثرہ پارٹی نہیں آئی تو ڈی پی او کے خلاف کیا کاروائی بنتی تھی اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ڈی پی او کو اس کے رویے کی سزا دینے کی کوشش کی گئی کہ اپنے بادشاہ کے مزید تابعدار ہو جاؤ انکوائری میں اس نتیجے میں پہنچا ہوں کہ 27جولائی کو ڈی پی او پاکپتن کہ تبادلے کی احکامات سی ایم ہاؤس سے آئے اور آئی جی نے محض ربڑ سٹمپ کے طور پر کام کیا تبادلے کے احکامات سی ایم کی منظوری سے ہی ہوتے ہیں رضوان گوند ل کے تبادلے کی سمری میں کچھ لفظوں کو کاٹ کر لکھا گیا یہ احکامات زبانی طور پر دئیے جا رہے ہیں یہ درست ہے کہ افسر نے اس غلطی کو درست کرنے کی کوشش کی مگر اس سے شکوک پیدا ہو گئے ۔آئی جی نے ذاتی طور پر 25جولائی کو ایڈشنل آئی جی کو انکوائری کا حکم دیا جو کہ 30جولائی کو موصول ہوئی ایسے میں آئی جی نے رپورٹ کا انتظار کیوں نہیں کیا اور 27جولائی کو کیاجانے والاکام کہیں سے دباؤ کی غماضی کرتا ہے آئی جی کے مطابق اس نے ڈی پی او کا تبادلہ معاملے میں شفافیت لانے اور دباؤ قبول نہ کرنے کی یقین دہانی کے لیے تھا پھر اس طرح کے تبادلے کے احکامات کیوں جاری کیے گئے۔