کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو) سندھ سیکریٹریٹ کمپلیکس 7اور8 کی تعمیر کرپشن اوربجٹ کی عدم فراہمی کےباعث کئی ماہ سےتعطل کاشکارہے،5 سال گزرنے کے باوجود منصوبے پر 50 فیصد کام بھی نہ ہو سکا اور سابقہ پروجیکٹ ڈائریکٹر نے کروڑوں روپے ہڑپ لئے ۔جاتے جاتے ٹھیکیدارکی کال ڈپازٹ کی رقم بھی لے اڑا۔ چیئرین اینٹی کرپشن کی ہدایت پر تفتیشی افسر نے تعمیری کام کے فزیکل معائنے کے بعد سابق پی ڈی اور دیگر حکام کوآج طلب کر لیا۔ تفصیلات کے مطابق 2014 میں عوام کو سہولیات کی فراہمی اور سرکاری محکموں کو یکجا کرنے کی غرض سے سندھ سیکریٹریٹ کمپلیکس7اور8 کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔سندھ ہائی کورٹ کے قریب اور ایم پی ایز ہاسٹل کے بلمقابل شاہراہ لیاقت اور مسجد خضرا کے عقب میں زیر تعمیر سندھ سیکریٹریٹ کمپلیکس7اور8 کی تعمیر 5سال گزر جانے کے باوجود مکمل نہیں ہو سکی۔9 لاکھ 30 ہزار اسکوائرفٹ پر مشتمل سندھ سیکریٹریٹ کمپلیکس 7کی کی لاگت کا تخمینہ 3 ارب روپے تھا۔ اس میں 6 عمارتیں تعمیر کی جانی ہیں، بلاک 1 کی عمارت 15 منزلہ جبکہ دیگر 5 بلاکس کی عمارتیں 5 منزلہ شامل ہیں۔ 9 لاکھ اسکوائر فٹ پر سندھ سیکریٹریٹ کمپلیکس 8 کا تخمینہ 2 ارب 90 کروڑ روپے ہے اس میں 4 عمارتیں تعمیر ہونی ہیں، جن میں بلاک 1 کی عمارت 15 منزلہ اور 5 بلاکس کی عمارتیں 5 منزلہ شامل ہیں ۔ اس کی تعمیر کے لئے3 فرمز نے ٹینڈر جمع کروائے تھے ،جن میں محمد حسنی بلڈرز ، کے این بلڈرز اور گل بلڈرز شامل تھیں۔ گل کنسٹرکشن کے ریٹ کم ہونے پر اس منصوبے کا ٹھیکہ گل کنسٹرکشن کو دیا گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے نقشوں کی تیاری کے بعد اس کی تخمینی لاگت میں رد و بدل کرتے ہوئے 4 ارب 70 کروڑ روپے کی گئی، تاہم جاری کئے جانے والے بجٹ کا زیادہ حصہ کرپشن کی نذرہو گیا۔ مالی سال 18-2017 میں رکھا گیا بجٹ محض اس لئے استعمال نہیں کیا جا سکا کہ بجٹ کی رقم اس وقت جاری کی گئی ،جب مالی سال کے اختتام میں صرف 2 ماہ باقی تھے اور ٹھیکیدار کام بند کرچکا تھا۔ محکمہ ورکس اینڈ سروسز نے جب کام میں تاخیر اور بجٹ استعمال نہ کرنے سے متعلق پروجیکٹ ڈائریکٹر نور الاسلام سے رپورٹ طلب کی تو معلوم ہوا کہ کرپشن کے باعث یہ منصوبہ التوا کا شکار ہے اور ٹھیکیدار نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں میسرز گل کنسٹرکشنز کے مالک منصوبے کا ٹھیکہ ملنے پر انہوں نے کال ڈپازٹ کے طور پر 12 کروڑ 20 لاکھ ، 14 ہزار 868 روپے جمع کروائے تھے۔ قانونی طور پر کال ڈپازٹ کی رقم بنک میں رکھوائی جاتی ہے ،جو کام کی تکمیل پر ٹھیکیدار کو واپس کی جاتی ہے، لیکن سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر سیدکامران آصف اور اکاؤنٹنٹ محمد ہارون نے یہ رقم ہڑپ کر گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کرپشن کو چھپانے کے لئے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے گل کنسٹرکشنز کو کام جاری رکھنے کے لئے کہا تو انہوں نے کہا کہ کال ڈپازٹ کے بغیر بنک ان کے بل کی ادائیگی نہیں کر رہا، جس پر انہوں نے گل کنسٹرکشنز کو کہا کہ وہ کسی اور فرم کے نام سے کام کریں جس پر انہوں نے محکمہ انصاف کو لیٹر لکھ کر فرم بدلنے سے متعلق رائے طلب کی ۔ محکمہ انصاف نے جواب دیا کہ فرم نام تبدیل کرسکتی ہے لیکن کال ڈپازٹ کے بغیر نہیں اور کام وہی ٹھیکیدار کرے گا جوشروع سے کررہاہے۔تاہم اس منصوبے کے پی ڈی اور گل کنسٹرکشنز نے ملی بھگت سے ایک اور فرم یونائٹیڈ کنسٹرکشنز سے کام شروع کیا تو بل جمع ہوتے ہی بینک نے کال ڈپازٹ کی رقم کاٹ لی جس پر اس فرم نے بھی کام بند کر دیا اور پی ڈی بھی ریٹائرڈ ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق جب محکمہ ورکس اینڈ سروسز نے یہ رپورٹ وزیر اعلیٰ سندھ کو ارسا کی تو انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فائل چیئرمین اینٹی کرپشن کو ارسال کر دی اور کہا کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائے۔ذرائع کے مطابق اینٹی کرپشن حکام کی طرف سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات کے دوران حاصل کئے جانے والے ریکارڈ سے کرپشن کے ٹھوس شواہد حاصل ہوئے ہیں ،جبکہ سابقہ پی ڈی آج اینٹی کرپشن حکام کے روبرو پیش ہو کر اپنا بیان قلبند کروائیں گے۔ اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر محکمہ سروسز حکام نے بتایا کہ اس منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی بنیادی وجہ بجٹ کی عدم دستیابی نہیں ،بلکہ موجود بجٹ کا غلط استعمال ہے۔ اس منصوبے کے موجودہ پی ڈی نور الاسلام کا کہنا ہے کہ تمام مطلوبہ ریکارڈ اینٹی کرپشن حکام کو دے دیا گیا ہے ۔تفتیشی افسر نے مزید جو معلومات طلب کی ہے وہ ریکارڈ پیر کے روز فراہم کر دیا جائےگا۔