عمران حکومت نے سی پیک کو بارگیننگ چپ بنا لیا

بیجنگ(امت نیوز)چین کے سرکاری اخبار ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے کہا ہے کہ عمران حکومت نے سی پیک کو بارگیننگ چپ بنا لیا ہے ۔ پاکستانی حکومت صرف اس معاملے پر چین سے مراعات لینا چاہتی ہے، بلکہ وہ چین امریکہ تجارتی محاذ آرائی کا حصہ بننے کو بھی تیار نہیں ۔چینی قیادت و وزیر اعظم عمران خان کے دورہ بیجنگ کے موقع پر مذاکرات کے دوران سی پیک کے معاملات پر اہم فیصلے متوقع ہیں۔چین کی جانب سے سی پیک منصوبوں کے معاہدوں کی شرائط مزید بہتر بنائے جانے اور قرضوں کی ری شیڈولنگ بھی متوقع ہے۔پاکستانی برآمدات کیلئے چین میں ٹیکس رعایتیں دیے جانے کی توقع ہے ۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جانب سے سی پیک منصوبے میں سعودی عرب کو شامل کرنا چین کو ناراض بھی کر سکتا ہے ۔وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے پہلے سعودی عرب کو سی پیک کا حصہ قرار دینے اور پھر عجلت میں بیان واپس لینے سے چین میں تاثر پیدا ہوا کہ عمران خان حکومت فولادی بھائی کے ساتھ مخلص نہیں ۔چینی صدر شی جن پنگ تشویش کا شکار ہیں کہ پاکستان میں ان کی پہل کاری سے چین کو کچھ حاصل بھی ہو گا یا نتیجہ الٹ نکلے گا ۔ رپورٹ کے مطابق عمران حکومت ملک پرغیر ملکی قرضوں میں کمی و چین و امریکا تجارتی محاذ آرائی کا حصہ بننے سے گریزاں ہے ۔حالیہ2 اہم فیصلوں سے تاثر ابھرا کہ وہ سی پیک کو سودے بازی کیلئے استعمال کر رہی ہے ۔پاکستانی حکومت نے پہلے سی پیک منصوبے کی لاگت 62 ارب ڈالر سےکم کر کے50 ارب ڈالر کر دی دوسرا بڑا فیصلہ سی پیک منصوبہ کے مغربی روٹ یعنی گوادر کوسنکیانگ سے ملانے کے روٹ پر پیشرفت نہ کرنا ہے ۔سی پیک کے تحت ریل نیٹ ورک کی بحالی کیلئے 8ارب ڈالر کے اخراجات میں بھی کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔یہ اقدامات جاری کھاتے کے خسارے میں کمی کیلئے کئے گئے ۔عمران حکومت کے خیال میں جاری کھاتے کا خسارہ ریکارڈ سطح پر ہونے کی وجہ پیشرو نواز شریف کی حرص پر مبنی پالیسیاں ہیں ،نواز حکومت یہ فراموش کر بیٹھی تھی کہ سی پیک منصوبوں کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں بھاری مشینری بھی آئے گی اور زر مبادلہ ذخائر بھی اس کا اثر پڑے گا ۔معاشی ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اسے قرضے کی بڑی سیاسی قیمت چکانی پڑے گی ۔امریکی وزیر خارجہ پومپیو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم پاکستان کو چینی قرضے چکانے کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے جبکہ حال ہی میں اسلام آباد کا دورہ کرنے والا آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کو سی پیک معاہدوں کی زیادہ تفصیلات سامنے لانے کا مطالبہ کر چکا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ان اقدامات کا مقصد کہیں امریکا کا موقف نرم کرانا تو نہیں تاکہ پاکستان کو کثیر الجہتی مالی مدد مل سکے۔اس سوال کا جواب سرحد پار واقع ایران ہے ،جو مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کے ایجنڈے اور پابندیوں کا ہدف ہے ۔سی پیک کے غربی روٹ کی وجہ سے چین کو یہ موقع حاصل ہوا تھا کہ وہ سی پیک کی فطری منزل ایران تک اسے توسیع دے سکے ۔ ایران کے ساتھ 2015 کے معاہدے کے نتیجے میں وہاں قابل ذکر سرمایہ کاری بھی کی جا چکی ہے ۔ پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کو گوادر میں بڑی آئل ریفائنری اور تیل کی ذخیرہ گاہ بنانے کی دعوت دینے کے فیصلے سے لگتا ہے کہ سی پیک کا فائدہ چین کے بجائے کسی اور کو دینا ہے ۔سعودی عرب کے ولی محمد بن عبداللہ حکومت مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ انتظامیہ کی مدد گار ہے ۔ریاض کی حکومت نے ایران سے جوہری معاہدے کے خاتمے پر خوشیاں منائی تھیں ۔پاکستان نے چین کو صرف تیسرا فریق سی پیک میں شامل کرنے کی بات بتائی تھی ، یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ تیسرے فریق ملک کا نام سعودی عرب ہے ۔ چینی حکام کو تو یہ خیال بھی نہ گزرا تھا کہ پاکستان اپنے زر مبادلہ ذخائر پر دباؤ کم کرنے اور آئی ایم ایف سے رجوع کی ضرورت کم کرنے کیلئے گوادر کو بنیاد بنا کر موخر ادائیگی پر تیل کے حصول کی سودا بازی کرے گا ۔

Comments (0)
Add Comment