چائنا کٹنگ پر مصطفیٰ کمال – نسرین جلیل کیخلاف مقدمے کی اجازت طلب

کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو) محمود آباد کی 83 ایکڑ رفاہی اراضی متحدہ کے کارکنوں میں بانٹنے کی تحقیقات مکمل کرلی گئیں۔ محکمہ اینٹی کرپشن نے قومی خزانے کو 9 ارب 20 کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے پر سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال اور نائب ناظمہ نسرین جلیل کے خلاف مقدمے کی اجازت طلب کر لی جب کہ کے ایم سی اور واٹر بورڈ کے 2 درجن سے زائد افسران کے خلاف بھی زیر دفعہ 409، 420، 34 پی پی سی اور دیگر انیٹی کرپشن قوانین کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کی سفارش کی ہے۔جن میں چیف انجنیئر واٹر بورڈ سید ظہیر عباس زیدی سابق ایم ڈی واٹر بورڈ غلام عارف، سابق چیف انجنیئر واٹر بورڈ گلزار میمن شامل ہیں۔باخبر ذرائع کے مطابق محکمہ بلدیات کی شکایت اور چیف سیکریٹری سندھ کی سفارش پر محکمہ اینٹی کرپشن نے 09-2008 میں محمود آباد میں واٹر بورڈ کی 49.75 ایکڑ اور کے ایم سی کی 33 ایکڑ زمین کی غیر قانونی چائنا کٹنگ اور رہائشی مقاصد کے لئے الاٹمنٹ کی تحقیقات مکمل کر لی ہے۔ محمود آباد میں یہ اراضی ٹی پی ٹو اور ایس تھری منصوبے کے لئے مختص تھی جو چائنا کٹنگ کی نذر کردی گئی۔ تحقیقات کے دوران ثابت ہوا ہے کہ یہ چائنا کٹنگ اور قبضہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے تھا تاکہ اس علاقے میں اپنے ورکر داخل کئے جا سکیں اور مخالفین سے نمٹا جا سکے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس پلاٹ کو چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کر کہ زیادہ تعداد میں افراد کو بسانے کا مقصد یہ بھی تھا کہ یہاں ووٹ بنک کو بڑھایا جا سکے نہ صرف قبضہ ہوا بلکہ ان افراد کے قبضے کے فوری بعد ووٹوں کا بھی اندراج کرایا گیا اور یہ سب انتہائی برق رفتاری سے کیا گیا۔ تحقیقات کے دروران حاصل ہونے والے لے آؤٹ پلان کے مطابق اس اراضی کو 3051 پلاٹوں میں تقسیم کیا گیا اور 1972 کے ریکارڈ کے مطابق مالکانہ حقوق کی بنا پر الاٹ کی گئی ۔ ریکارڈ میں جعلی انٹریاں کی گئیں 2010 سے 2012 تک سینکڑوں جعلی لیزیں جاری ہوئیں تاہم چھان بین کے دوران معلوم ہوا کہ کے ایم سی کے پاس جاری کی جانی والی ان لیزوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا جس کا اعتراف ڈائریکٹر لینڈ کے ایم سی نے بھی کیا۔ تحقیقات کے دوران واٹر بورڈ کے ریٹائرڈ سپرنٹنڈنگ انجنیئر قیصر علی ولد سید علی اصغر اور اس وقت کے ایگزیکٹو انجنیئر واٹر بورڈ جگدیش کمار نے قلمبند کروائے جانے والے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ انہوں نے ایم ڈی واٹر بورڈ اور چیف انجنیئر کے دباؤ میں آکر دستخط کئے ۔ محکمہ اینٹی کرپشن کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق قبضہ کی گئی زمین کی مالیت 4 ارب ، 20 کروڑ روپے جبکہ ایس تھری منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کے باعث اس کی لاگت میں 5 ارب روپے کا اضافہ ہوا مجموعی طور پر قومی خزانے کو 9 ارب 20 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ تحقیقات کے دوران افسران میں لائنزایریا بحالی منصوبے کے ڈائریکٹر سیف الرحمان شامل ڈی ڈی او رشید رضوی اور فرید نسیم کو بھی طلب کیا گیا ان کے بیان قلمبند کئے گئے۔تفتیشی افسران نے متعلقہ محکموں کے درجنوں افراد کے بیان قلمبند کئے اور مائیکرو فلمنگ سے لیکر کئی محکموں کا ریکارڈ بھی طلب کیا ۔ 26 ستمبر کو پی ایس پی سربراہ اور سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال کو بھی طلب کیا گیا جس نے حکام کے روبرو قلمبند کروائے گئے اپنے بیان میں زمین کی الاٹمنٹ کا اعتراف کیا اور کہا کہ انہوں نے یہ زمین مستقل بنیادوں پر الاٹ نہیں کی تھی بلکہ عارضی الاٹمنٹ تھی حکومت چاہے تو الاٹمینٹ منسوخ کر سکتی ہے۔ واضح رہے کہ چائنا کٹنگ کی باعث ایس تھری پروجیکٹ تاحال مکمل نہیں کیا جاسکا جبکہ واٹر اینڈ سیوریج کا یہ منصوبہ 2009 میں مکمل کیا جانا تھا۔ کیس کی فائنڈنگس میں بتایا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران یہ پایا گیا کہ مذکورہ اراضی اراضی ٹی پی ٹو اور ایس تھری منصوبے کے لئے مختص تھی تاہم ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس کے تحت رفاہی اراضی کو رہائشی یا کمرشل میں تبدیل کر کہ اپنی مرضی کے مطابق الاٹ کیا جا سکے۔ اس زمین کو چائنا کٹنگ کی نذر کرنے کے لئے سٹی دسٹرکٹ گورنمنٹ نے 1975 میں کے ایم سی منظور ہونے والی ایک قرارداد نمبر 1152 اور 16 اگست 1980 کو منظور کی جانے والی قرار داد نمبر 104 کا غیر قانونی طور پر سہارا لیا گیا جبکہ ان قرار داووں میں اس طرح کے غیر قانونی عمل کی کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ مزید کہا گیا ہے کہ لائنز ایریا بحالی منصوبے کے قوائد و ضوابط کے مطابق اس منصوبے کے متاثرین کو کے ڈی اے اسکیم میں منتقل ہونا تھا لیکن ان متاثرین کی بحالی کے نام پر اس اراضی پر من پسند اور ایک مخصوص پارٹی کے افراد کو پہلے قبضہ کرنے دیا گیا اور بعد میں جعلسازی کے ذریعے انہیں پلاٹ الاٹ کر دئیے گئے۔ اس غیر قانونی الاٹمنٹ سے نہ صرف ایس تھری منصوبہ بری طرح متاثر ہوا اور بھاری کمیشنوں کی وصولی کی گئی جس کی وجہ سے منصوبے کو تاخیر کا شکار بنایا گیا جس سے منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہوا اور قومی خزانے کو 5 ارب روپے کا نقصان ہوا ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ حکام کی سر پرستی میں کئے جانے والے اس قبضے سے ماحولیاتی تباہ کاریوں میں بھی اضافہ ہوا اور ہاکس بے سے کورنگی کریک تک سیوریج کا منصوبہ متاثر ہوا ۔تحقیقات کے دوران یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے بھی اس غیر قانونی عمل میں ملزمان کو تحفظ فراہم کیا اور قابضین کو ہٹانے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ رفاہی اراضی کو قبضہ مافیا سے خالی کروانے کے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے بلکہ کے ایم سی اور واٹر بورڈ حکام سہولتکاری کا کام انجام دیتے رہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی جس میں سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال ، نائب ناظمہ نسرین جلیل اس وقت کے ڈی سی او جاوید حنیف ، اے ای ڈی اور متانت علی ، اے ای ڈی او شوکت جوکھیو ، فضل الرحمٰن ، نذیر لاکھانی ڈائریکٹر کچی آبادی کے ایم سی، اس وقت سینیئر ڈائرکٹر ایل ایم واٹر بورڈ، شمس الدین ڈپٹی دائریکٹر ایل ایم ایڈمن کے ایم سی، کے ایم سی لینڈ مینجمنٹ کے افسران طارق نذیر ، محسن انصاری ، ندیم خان ، علی احمد نقوی ، ڈپٹی ڈائریکٹر لینڈ بلدیہ ٹاؤن، سابق ایکسی این منظورہ برنی شامل تھے۔ جبکہ ڈائریکٹر لینڈ واٹر بورڈ محمد شعیب تغلق خان ، ایگزیکٹو انجنیئر واٹر بورڈ ایاز حسین، چیف انجنیئر واٹر بورڈ سید ظہیر عباس زیدی، ڈپٹی ڈائریکٹر لینڈ محمود آباد سید علی رضا، سابق ایم ڈی واٹر بورڈ غلام عارف، سابق چیف انجنیئر واٹر بورڈ گلزار میمن کے خلاف زیر دفعہ 409، 420، 34 پی پی سی اور دیگر انیٹی کرپشن قوانین کے تحت مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی ہے۔ ان افسران نے قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نہ صرف پلاٹ الاٹ کئے بلکہ پلاٹ کے بدلے پلاٹ دئیے لے آؤٹ پلان منظور کئے اور یہ افسران براہ راست غیر قانونی عمل میں ملوث ہیں۔

Comments (0)
Add Comment