پی ٹی آئی حکومت نے کشکول اٹھالیا

اسلام آباد (نمائندہ امت /مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان کر دیا، جس کے بعد کشکول نہ اٹھانے اور قرضہ نہ لینے کے دعوے دھرے رہ گئے ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ اپنی شرائط پر بیل آؤٹ پیکیج دیگا۔ ذرائع کے مطابق گردشی قرضے گھٹانے، ٹیکس نیٹ بڑھانے، خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری اور ترقیاتی اخراجات میں کمی کا مطالبہ کیا جائیگا۔ بجلی مہنگی اور پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر وفد کے ہمراہ انڈونیشیا روانہ ہوگئے، جہاں قرضے کیلئے آئی ایم ایف سے مذاکرات رواں ہفتے شروع ہونگے۔ 3سال کیلئے 6سے8 ارب ڈالر ملنے کی امید ہے۔ وزارت خزانہ کے اعلامیہ کے مطابق حکومت پروگرام لے کر بنیادی اصلاحات کرے گی، جس کے باعث دوبارہ رجوع کی ضرورت نہیں ہوگی۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر عملدرآمد سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا اور براہ راست متاثر عوام ہوں گے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسدعمر نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے آئی ایم ایف سے فوری مذاکرات کی منظوری دے دی ہے۔ ایک بیان میں اسدعمر کا کہنا تھا کہ ملک جس مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ اس کا سب کو ادراک ہے۔ آئی ایم ایف سے ایسا پروگرام لینا چاہتے ہیں جس سے معاشی بحران پر قابو پایا جاسکے اور جس کا کمزور طبقے پر کم سے کم اثر پڑے، معاشی بحالی کے لیے ہمارا ہدف صاحب استطاعت لوگ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہر جانے والی حکومت نئی حکومت کے لیے معاشی بحران چھوڑ کر گئی، ہر نئی حکومت کے آنے پر معاشی بدحالی کا تسلسل توڑنا چاہتے ہیں اور ہم مستقل بنیادوں پر معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں، ابھی مشکلات برداشت کرلیں گے، لیکن ملک کو پاؤں پر کھڑا کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس بحران سے نکلنے کے لیے متبادل راستے اختیار کرنے ہیں اور اس مشکل سے نکلنے کے لیے ایک سے زیادہ ذرائع استعمال کریں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی بحالی کے لیے اقتصادی ماہرین کے ساتھ مشاورت کی ہے اور دوست ملکوں سے بھی سلسلہ جاری ہے۔اسد عمر نے کہا کہ روزگار کی فراہمی معاشی ترجیحات میں شامل ہے اور معاشی بحران پر قابو پانے کے لئے بنیادی منشور میں تبدیلی نہیں کرنا چاہتے۔ان کا کہنا تھا کہ معاشی بحالی آسان چیلنج نہیں ہے لیکن پاکستانی قوم نے ہمیشہ مشکل حالات کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق حکومت نے مالیاتی صورتحال پر ماہرین معاشیات سے مشاورت کے بعد آئی ایم ایف کا پروگرام لینے کا فیصلہ کیا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ حکومت آئی ایم ایف کا پروگرام لے رہی ہے، پاکستان 1990 کے بعد 10مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام لے چکا ہے۔اعلامیے کے مطابق ہر حکومت نے گزشتہ حکومتوں کی پالیسوں سے معیشت کے نقصانات کے باعث آئی ایم ایف سے رجوع کیا۔اس وقت پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 ارب ڈالر ماہانہ ہے، توانائی کے شعبے کے نقصانات 1ہزار ارب روپے سے زیادہ ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔ اعلامیے کے مطابق ترامیمی فنانس ایکٹ بھی ان حالات کی وجہ سے لانا پڑا، جبکہ اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں اضافہ مائیکرو اکنامک استحکام کے لئے کیا۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کا وفد اپنی شرائط لے کر پاکستان آئے گا اور ان پر پاکستان کی رضامندی کے بعد پروگرام کو حتمی شکل دی جائے گی۔ آئی ایم ایف نے ڈالر مہنگا کرنے کی شرط عائد کی ہے۔ اس کے علاوہ بیل آؤٹ پیکیج ملنے کی صورت میں امکان ہے کہ بجلی کی قیمت میں 2سے 4روپے فی یونٹ اضافہ ہو سکتا ہے، جبکہ پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی بھی ختم کی جاسکتی ہے۔ حکومت کو پی آئی اے اور اسٹیل مل کی حیثیت کا ازسرنو تعین کرنا ہوگا اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی فوری نجکاری کے پروگرام پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے گردشی قرضے کم کرنے، نیٹ بڑھانے، سرکاری اداروں میں نقصانات میں کمی لانے، سرکاری اداروں میں خسارہ کم کرنے، اخراجات میں کمی کرنے اور مصنوعات سازی بڑھا کر برآمدات میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کرے گا۔ وزیر خزانہ اسد عمر کی قیادت میں پاکستانی وفد ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے بالی انڈونیشیا روانہ ہوگیا۔ وفد میں سیکریٹری خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک بھی شامل ہیں جو 14اکتوبر تک جاری رہنے والے اجلاس میں شرکت کرے گا۔ اجلاس کی سائیڈ لائنز پر آئی ایم ایف سے مذاکرات رواں ہفتے متوقع ہیں۔ درخواست پر 6سے8 ارب ڈالر ملنے کی امید کی جا رہی ہے۔ اس سارے عمل کیلئے 4سے 6 ہفتوں کا وقت درکار ہوگا، جبکہ آئی ایم ایف پروگرام کا دورانیہ 3سال ہوگا۔ وزارت خزانہ کے مطابق اسد عمر کی گفتگو کا محور پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز ہوں گے۔ معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج ملنے کی صورت میں پاکستان مہنگائی کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا، جس میں غریب آدمی کے لیے جینا مشکل ہو جائے گا۔ پاکستان کو زرمبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر، بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کے سبب فوری طور پر کم از کم 14 سے 15 ارب ڈالرز کا بیل آؤٹ پیکیج درکار ہے۔ ادھر سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہوں گی، تاہم یہ درست فیصلہ ہے کیونکہ اس وقت مارکیٹ میں غیریقینی صورتحال ہے، دوست ممالک بھی ہمیں 10 ،15ارب ڈالر دینے پر تیار نہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت ترین کا کہنا تھا کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ دوست ممالک بھی 5، 7ارب ڈالر دے دیں تو معاملات سنبھالنا آسان ہوجائے گا۔ تاہم یہ آئی ایم ایف کا سخت پروگرام ہوگا، ٹیکس اصلاحات، پبلک سیکٹر میں اصلاحات کے علاوہ گیس اور پیٹرول وغیرہ کی قیمتیں بڑھانی پڑیں گی۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ کیا معیشت اس طرح چلائی جاتی ہے، یہ قوم کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں، بھینسیں بیچ کر معیشت ٹھیک نہیں ہوتی۔ ہم نے توانائی کی پیداوار بڑھا دی تھی۔ اب ان کا کام ہے کہ اس کی تقسیم کو بہتر بنائیں اور عوام پر مزید بوجھ نہ ڈالیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ ڈالر کو استحکام نہیں آرہا تھا۔ غیر یقینی کیفیت ختم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جا رہے ہیں، کوشش یہ ہے کہ پروگرام کو اس طرح آگے بڑھائیں کہ دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر دوست ممالک سے بھی مدد لیں گے۔ واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا برسراقتدار آنے سے قبل مؤقف تھا کہ وہ آئی ایم ایف سمیت قرض لینے کسی عالمی مالیاتی ادارے کے پاس نہیں جائیں گے۔ آئی ایم ایف کا ایک اعلیٰ سطحی وفد گزشتہ ہفتہ ہی پاکستان کا تفصیلی دورہ کرکے واپس گیا ہے۔ وفد نے وزارت خزانہ کے حکام سے ملاقاتیں کیں تھیں، جس کے دوران کچھ سخت شرائط بھی پیش کی گئی ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment