کراچی(رپورٹ:راؤ افنان)ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں ری اسیسمنٹ و ری چیکنگ کا نظام نہ ہوے کی وجہ سے ہزاروں طلبہ اور طالبات بغض رکھنے والے اساتذہ کی جانب سے مسلسل فیل کئے جا رہے ہیں۔این ایف سی فیصل آباد انجنیئرنگ فائنل ایئر کے ایک طالبعلم نے بھی دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کی۔جامعہ کراچی کے شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری کے 200سے زائد طلبہ بھی ٹیچر کی جانب سے فیل کئے جانے پر سراپا احتجاج ہیں۔تعلیمی اداروں میں طلبہ سے امتحانات میں دیے گئے نمبرز پر اعتراض کے حوالے سے اسکروٹنی فارم وصول کرنے کے بعد جواب ری کاؤنٹنگ کا دیا جاتا ہے۔طالبعلم سیف اللہ جمالی کی خودکشی کے بعد سوشل میڈیا پر جامعات کے طلبہ نے نشاندہی کرنا شروع کردی ہے کہ اساتذہ تمام جامعات میں طلبہ کو فیل کر رہے ہیں۔متاثرہ طلبہ کا موقف ہے کہ انصاف دینے کیلئے ضروری ہے کہ انہیں دیے گئے نمبرز دوبارہ گننے کے بجائے ان کی امتحانی کاپنیوں کی ری چینکنگ اور ری اسیسمنٹ کی جائے ۔بعض طلبہ نے انکشاف کیا کہ اساتذہ اور متعلقہ شعبے کا سربراہ سبھی غلط فیل کرنے کا اعتراف کرتے ہیں ،تاہم انہیں انصاف دلانے کے بجائے انہیں دوبارہ پرچہ دینے کیلئے کہا جاتا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ یہی زیادتی این ایف سی انسٹیوٹ آف انجنیئرنگ اینڈ فرٹیلائیزر ریسرچ فیصل آباد میں کیمیکل انجنیئرنگ کے طالب علم سیف اللہ جمالی رجسٹریشن نمبر 2015-UET-IEFR-CHEM-FD-86 کو استاد کی جانب سے 3بار فیل کیا گیا لیکن شنوائی نہ ہونے و یکم اکتوبر کو شعبہ کیمیکل انجنیئرنگ کے سربراہ ڈاکٹر وقار علی خان کی جانب سے سیف اللہ جمالی کا داخلہ خارج کرنے کا نوٹس جاری کر دیا گیا اور اسے کلاسز میں بیٹھنے نہ دینے کی ہدایات جاری کر دی گئیں ،جس پر طالبعلم نے دل برداشتہ ہوکر کیمپس گیٹ پرخودکشی کرلی۔سیف اللہ جمالی نے آخری خط میں اپنی خودکشی کی چھان بین نہ کرنے کی استدعا کی۔ معلوم ہوا ہے کہ ایسی صورتحال کا ہزاروں طلبہ کو سامنا ہے۔جامعہ کراچی کے شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال نے مارننگ اور ایوننگ کے 200 سے زائد طلبہ کو ان آرگینک کیمسٹری کے امتحان میں فیل کیا گیا ہے ،جس پر گزشتہ روز طلبہ نے شیخ الجامعہ، رجسٹرار دفتر کے باہر احتجاج بھی کیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جامعہ انتظامیہ نے ڈین آف سائنس پروفیسر ڈاکٹر تسنیم آدم علی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی دی ہے ،تاہم طلبہ کی جانب سے استاد کے خلاف کارروائی اورامتحانی کاپی کی ری چیکنگ کا مطالبہ سامنے آیا ہے ۔ایک طالبعلم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں 2 بار مسلسل بار پیڈیاٹرکس(امراض اطفال) کے مضمون میں تحریری امتحان میں پاس اور زبانی امتحان میں فیل کیا گیا۔ کالج پرنسل وجامعہ کراچی کے ناظم امتحانات سے کی گئی شکایت پر بھی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔دوبارہ پرچہ دینے پر بھی جب فیل ہوا تو تحریری شکایت کی ۔ غلط فیل کئے جانے کے اعتراف کے باوجود کالج پرنسپل اور ناظم امتحانات نے ایک بار پھر پرچہ دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح ان کے2سال ضائع کئے جاچکے ہیں ۔میٹرک و انٹربورڈ کے سابق چیئرمین انوار احمد زئی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہا ہے کہ امتحانات کے2 نظام ہیں ۔ایک طریقہ ایکسٹرنل ایویلیوایشن ہے جو میٹرک،انٹر،کالجز و پرائیوٹ امتحان میں چل رہا ہے ۔اس میں طالب علم پڑھتا کہیں سے ہے اور اس کا امتحان بورڈ لیتا ہے، اس میں استاد اور طلبہ کا امتحانی نمبر کے ساتھ بالواسطہ تعلق نہیں ہوتا اور نہ کاپی چیک کرنے والا طالب علم کو جانتا ہے تو۔ ایسے میں کسی طالبعلم کے ساتھ زیادتی کے امکان کی شرح صفر ہوتی ہے۔جامعات میں انٹرنل ایویلیوایشن کا نظام رائج ہے ، وہاں پڑھانے والا استاد خود ہی کاپی چیک ۔وہاں استاد اور طالب علم کے درمیان براہ راست تعلق ہوتا ہے ،وہاں کسی طالب علم کے ساتھ زیادتی کا امکان موجود رہتا ہے۔جامعہ کراچی کے سابق ناظم امتحانات پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمیٰ کا کہنا تھا کہ جامعات کے قوانین کے تحت ری اسیسمنٹ نہیں ری کاؤنٹنگ کی گنجائش ہے۔گزشتہ برس انٹر بورڈ کی اسکروٹنی کمیٹی کے سربراہ بنا تواسکروٹنی عمل کے دوران انکشاف ہوا کہ 50 سے زائد طلبہ کی کاپیاں صحیح چیک نہیں ہوئیں ،جنہیں پھر کاپی کے مطابق نمبرز دیے گئے ۔ری اسیسمنٹ کا نظام بالکل لاگو کیا جا سکتا ہے ۔یہ معاملہ اکیڈمک کونسل میں متعارف کرا کے لاگو بھی کیا جا سکتا ہے۔اگر کسی طالبعلم سے زیادتی ہورہی ہے تو اس کی کاپی کوئی اور استاد چیک کرلے تاکہ طالب علم کے خدشات دور ہوسکیں۔جامعہ کراچی کے رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر ماجد ممتاز کا کہنا ہے کہ طلبا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اس کے حقوق کیا ہے اور کیا طریقہ کار ہے تاکہ اگر اس کے ساتھ کہیں نا انصافی ہو رہی ہو تو اسےپتہ ہونا چاہئےکہ کس فورم پر چیلنج کیا جا سکتا ہے۔سمیسٹر کے امتحان میں استاد کاپی چیک کرنے کے بعد شعبےکے نتائج کی فہرست لگا دیتا ہے۔نتیجے پر کسی طالبعلم کو اعتراض ہے تو وہ اپنی کاپی دیکھنے کا مطالبہ کرسکتا ہے اور استاد اسےکاپی دکھانے کا پابند ہے کہ کہاں کتنے مارکس دیے گئے اور کیوں دیے گئے۔طالبعلم مطمئن نہ ہونے پرمتعلقہ شعبہ کےچیئرمین کوشکایت کی جا سکتی ہے اگر وہاں بھی شنوائی نہ ہو فیکلٹی ڈین کو شکایت کی جا سکتی ہے، وہاں بھی شنوائی نہ ہو تو جامعہ کے مشیر طلبہ امور، رجسٹرار اور شیخ الجامعہ سے رابطہ کرسکتا ہے۔ شیخ الجامعہ سے بھی انصاف نہ ملے تو ڈینز کمیٹی میں معاملے کو لے جایا جاسکتا ہے جو شیخ الجامعہ سے بھی جواب طلب کرسکتی ہے ۔واضح رہے کہ ایچ ای سی کی جانب سے سمیسٹر پالیسی گائیڈ لائن کے مطابق کسی بھی طالب علم کی امتحانی کاپی کو ری اسیس نہیں کیا جاسکتا۔