آئی ایس آئی چیف سمیت 7 اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں

راولپنڈی(مانیٹرنگ ڈیسک)آئی ایس آئی چیف سمیت پاک فوج کے 7 اعلیٰ عہدوں پرتقرریاں کردی گئیں۔موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار سمیت 5 تھری اسٹار جنرلز رواں ماہ ریٹائر ہوجائیں گے۔لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کوخفیہ ایجنسی کا سربراہ مقرر کیا گیاہے۔ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پرترقی پانے سے قبل وہ ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس تھے۔انہوں نے سیاچن میں ڈویژن بھی کمانڈ کی اور ڈسپلن کے حوالے سے سخت افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں ،جبکہ لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر کور کمانڈر پشاور،لیفٹیننٹ جنرل ندیم ذکی کورکمانڈر منگلا،لیفٹیننٹ جنرل محمدعدنان وائس چیف آف جنرل اسٹاف،لیفٹیننٹ جنرل اظہر صالح چیف آف لاجسٹک اسٹاف،لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف آئی جی آرمز،لیفٹیننٹ جنرل عبدالعزیزملٹری سیکریٹری جی ایچ کیو بنا دئیے گئے ہیں۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ سربراہان کی تبدیلی سے فوج کی پالیسی نہیں بدلتی ،بلکہ مربوط قومی حکمت عملی کے تحت راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔تفصیلات کے مطابق پاک فوج میں اعلیٰ سطح پرتقرریاں اور تبادلے کئے گئے ہیں۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کردیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل اظہر صالح عباسی کو چیف آف لاجسٹک اسٹاف جی ایچ کیو،جبکہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم ذکی کو کور کمانڈر منگلا تعینات کیا گیا ہے۔لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر کور کمانڈر پشاور اور لیفٹیننٹ جنرل عبدالعزیز کو ملٹری سیکریٹری جی ایچ کیو مقرر کیا گیا ہے۔اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل محمد عدنان وائس چیف آف جنرل اسٹاف مقرر کیے گئے ہیں ،جبکہ لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف کو آئی جی آرمز تعینات کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار سمیت پاک فوج کے 5 تھری اسٹار جنرلز رواں ماہ اپنے عہدوں سے ریٹائر ہوجائیں گے۔لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیرنوید مختار کی جگہ لیں گے ،جو 25اکتوبرکو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نے آفیسرز ٹریننگ اسکول سے فوج کی فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا تھا۔وہ لیفٹیننٹ کرنل کی حیثیت میں سعودی عرب میں بھی تعینات رہ چکے ہیں، جبکہ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج میں درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نے سیاچن میں ڈویژن کمانڈ کی اور ایم آئی کے سربراہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں،وہ ڈسپلن کے حوالے سے فوج میں ایک سخت افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔دریں اثناسابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یاسین نے کہا ہے کہ فوج کی پالیسی سربراہان کی تبدیلی سے نہیں بدل سکتی۔بی بی سی سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت کم ادارے ہیں ،جو ایک ادارہ جاتی پالیسی پر چلتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ نیا آرمی چیف،نیا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی یا نیا آئی ایس آئی سربراہ آئے اور وہ کوئی نیا راستہ دریافت کر کے اس پر چلنا شروع کر دے۔یہاں مربوط قومی حکمت عملی کے تحت راستہ اختیار کیا جاتا ہے اور فوج اور آئی ایس آئی اس کا حصہ ہوتی ہے۔ اس لیے پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہ تو نیا سربراہ لا سکتا ہے اور نہ ہی وہ لاتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ملک کے اندر سیکورٹی کے معاملات میں بھی آئی ایس آئی کا اہم کردار ہے ،جبکہ پاکستان میں اس کے کردار میں گزشتہ دو دہائیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اور پالیسی سازی میں دیگر اداروں کی طرح فوج کا یہ حصہ بھی اپنا اِن پُٹ(رائے) دیتا ہے۔یہ ایجنسی پالیسی ڈرائیور نہیں( پالیسی مرتب نہیں کرتی) بلکہ پالیسی فیسیلیٹیٹ کرتی ہے۔ اس کی اِن پٹ پر حکومت پالیسی بناتی ہے۔اس حوالے سےلیفٹیننٹ جنرل (ر)جاوید اشرف قاضی کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اپنے ادارے کی حد تک بہت طاقتور ہوتے ہیں، ڈی جی آئی ایس آئی اپنے ادارے کے اندر لوگوں کو رکھ سکتے ہیں، نکال سکتے ہیں ،واپس فوج میں بھیج سکتے ہیں، پوسٹ آؤٹ کر سکتے ہیں۔ لیکن جہاں تک ادارے سے باہر کا تعلق ہے توآئی ایس آئی کے سربراہ کی طاقت کا انحصار ان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف کے ساتھ تعلق پر ہے۔وزیراعظم انہیں عہدے سے ہٹا سکتے ہیں، اُن کے ماتحت تمام افسران آرمی چیف کی جانب سے ملتے ہیں اورفوج کے اندر طاقتور تو فوج کا سربراہ ہی ہے۔بی بی سی کے مطابق فوج میں عام طور پر یہ تاثر ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنزیعنی ڈی جی ایم او اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلیجنس یعنی ڈی جی ایم آئی کو فوجی سربراہ کے قریب ترین سمجھا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment