کراچی( رپورٹ :عمران خان ) منی لانڈرنگ اسکینڈل میں 15مشکوک اکاؤنٹس حبیب میٹروپولیٹن اور سلک بینک کے بھی نکل آئے ،جنہیں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے لئے استعما ل کیا گیا ،مجموعی طور پر منی لانڈرنگ میں استعمال ہونے والے 77مشکوک بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات میں اومنی گروپ کے مالکان انور مجید ،اے جی مجید ،سابق صدر آصف زرداری ،فریال تالپورکے علاوہ 5 بینکوں کی انتظامیہ اور افسران کو شامل تفتیش کرلیا گیا ہے،جن میں سمٹ بینک ،سندھ بینک ،سلک بینک اورحبیب میٹروپولیٹن بینک شامل ہیں ۔تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ان بینکوں کی انتظامیہ اور افسران کی جانب سے اسٹیٹ بینک کے قوانین کی دھجیاں بکھیریں گئیں اور شہریوں کے کوائف پر منی لانڈرنگ کرنے والوں کے لئے نہ صرف اکاؤنٹ کھولے گئے ،بلکہ ان اکاؤنٹس سے اربوں روپے کی رقوم کی ترسیل میں بھی بینکوں کے افسران نے مکمل معاونت فراہم کی ۔ذرائع کے بقول منی لانڈرنگ کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے ،جس میں منی لانڈرنگ کے میگا اسکینڈل میں ایف آئی اے کی ابتدائی تحقیقا ت 29مشکوک بینک اکاؤنٹس سے ہونے والی منی لانڈرنگ پر مکمل ہوچکی ہیں ،جس کے بعد آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید ان کے بیٹے اے جی مجید ،فریال تالپور،ملک ریاض کے عزیز زین ملک ،سندھ کی بااثر ٹھیکیدار کمپنی ڈی بلوچ ، سمٹ بینک کے سابق صدر حسین لوائی ،چیئرمین ناصر عبداللہ لوتھا ،اومنی گروپ کے مفرور اکاؤنٹس آفیسرز کے خلاف اگلے مرحلے کی کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ذرائع کے بقول اگلے مرحلے میں اومنی گروپ کے دفاتر اور فیکٹریوں کے علاوہ 77مشکوک بینک اکاؤنٹس میں رقوم منتقل کرنے اور نکلوانے والی 47کمپنیوں اور 334افراد کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے ،جس میں سندھ سے تعلق رکھنے والی متعدد کنسٹرکشن کمپنیاں اور بلڈرشامل ہیں ،جس کے لئے ان کمپنیوں اور افراد کے کیس میں کردا ر کے لئے جانچ پڑ تال شروع کردی گئی ۔جلد ہی ابتدائی طور پر سامنے آنے والے 29مشکوک اکاؤنٹس میں سے ہر اکاؤنٹ پر علیحدہ مقدمات درج کئے جائیں گے اور ہر مقدمے میں 29میں سے ہر اکاؤنٹ کی جانچ پڑتال میں سامنے آنے والے نئے مشکوک اکاؤنٹس کی تفصیلات اور ان اکاؤنٹس سے رقوم کی ترسیل اور وصولی سے منسلک کمپنیوں اور افراد کو بھی نامزد کیا جائے گا ۔ذرائع کے بقول ابتدائی طور پر سامنے آنے والے 29بے نامی اکاؤنٹس سے ہونے والی 35ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے لئے مجموعی طور پر ایف آئی اے کے 6تفتیشی افسران کو لگایا گیا تھا ،جو کہ اس وقت بھی جے آئی ٹی ممبران کی سربراہی میں کام کر رہے ہیں ،رواں برس 6جولائی کو ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل میں منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج ہونے کے بعد سے ایف آئی اے کے6تفتیشی افسران میں سے ہر تفتیشی افسر کو 5بینک اکاؤنٹس کی چھان بین کے ذمے داری سونپی گئی تھی ،مذکورہ 6تفتیشی افسران میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد علی ابڑو،انسپکٹر سراج پنہور،انسپکٹر محمد اقبال ،انسپکٹر منصور مومن ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر خالد انیس اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر جمیل میو شامل ہیں ۔ہر تفتیشی افسر کو 3سے 4ماتحت افسرا ن اور اہلکار وں کی معاونت حاصل ہے ۔ذرائع کے مطابق تمام تفتیشی افسران ابتدائی 29مشکوک بینک اکاؤنٹس پر تحقیقات مکمل کرچکے ہیں ،جن میں سے کئی اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے دوران مزید اکاؤنٹ سامنے آئے ۔ذرائع کے بقول5 بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات کرنے والے ایک تفتیشی افسر کو 15نئے بینک اکاؤنٹس کا سراغ ملا ،جبکہ دیگر تفتیشی افسران بھی 2سے 3نئے اکاؤنٹس کا سراغ لگا چکے ہیں ،جس کے بعد مجموعی طور پر منی لانڈرنگ کے اس کیس میں اب تک 77مشکوک اکاؤنٹ سامنے آچکے ہیں ۔ذرائع کے بقول ابتدائی طور پر سامنے آنے والے 29بینک اکاؤنٹس سمٹ بینک ،سندھ بینک اور یونائٹڈ بینک کی برانچوں میں کھولے گئے تھے ،جنہیں بینک انتظامیہ اور افسران کی معاونت سے ہینڈل کیا جاتا رہا تھا ،یہی وجہ ہے کہ ان بینکوں میں موجود بے نامی اکاؤنٹس کی تحقیقات کے لئے ان بینکوں کے مرکزی سرور سسٹم سے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ حاصل کیا گیا تھا ،جس میں سمٹ بینک کا 10سالہ ریکارڈ سب سے پہلے لیا گیا ۔اس کے بعد سندھ بینک اور یونائٹڈ بینک سے بھی ریکارڈ حاصل کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ان تینوں بینکوں سے حاصل ہونے والے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ سے ہی مزید 48مشکوک بینک اکاؤنٹس کا سراغ ملا ،جس سے انکشاف ہوا کہ منی لانڈرنگ کے لئے زیادہ تر چھوٹے اور نئے بینکوں کو استعمال کیا گیا تھا ،کیونکہ چھوٹے اور نئے بینک زیادہ سے زیادہ سرمایہ حاصل کرنے اور کاروبار کو وسعت دینے کی پالیسی اپناتے ہیں اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے نافذ کردہ قوانین کی پاسداری کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ذرائع کے مطابق اب تک مجموعی طور پرمنی لانڈرنگ اسکینڈل میں5 بینکوں کی انتظامیہ اور افسران کو تحقیقات میں شامل کیا گیا ہے ،جن میں سندھ بینک ،سمٹ بینک ،سلک بینک ،حبیب میٹروپولیٹن بینک اور یونائٹڈ بینک شامل ہیں ،ذرائع کے مطابق 77مشکوک بینک اکاؤٹس پر تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے تفتیشی افسران روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی پیش رفت سے سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل پانے والی جے آئی ٹی ممبران ڈائریکٹر ایف آئی اے احسن صادق، ایف بی آر کے ریجنل ٹیکس آفس کے کمشنر آئی آرعمران لطیف، اسٹیٹ بینک کے جوائنٹ ڈائریکٹر بی آئی ڈی ون ماجد حسین کے علاوہ نیب کے ڈائریکٹر نعمان اسلم، سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر محمد افضل اور آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر شاہد پرویز کو رپورٹ پیش کررہے ہیں ،ذرائع کے بقول ابتدائی تحقیقات مکمل ہونے اور منی ٹریل ثابت کرنے کے بعد اگلے مرحلے کی کارروائی کا آغاز منگل کی شب سے کیا گیا جب ایف آئی اے کی ٹیم نے رینجر ز اور نیب افسران کے ساتھ اومنی گروپ کے دفتر پر اوپر تلے دو چھاپے مارے یہ دونوں چھاپے 4گھنٹوں تک کی کارروائی پر محیط تھے جس میں دفتر میں موجود دستاویزی اور کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کی چھان بین کی گئی ساتھ ہی دفتر میں لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ کو بھی تحویل میں لیا گیا یہ کارروائی ایف آئی اے کے منی لانڈرنگ کے تفتیشی افسر سراج پہنور کے پاس موجود مشکوک بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات کے سلسلے میں کی گئی جس میں سے تحقیقات کا ایک حصہ جے آئی ٹی میں شامل نیب کے ڈائریکٹر کے توسط سے نیب میں زیر تفتیش ہے،چھاپے کے دوران انور مجید کے دفتر پر ایک ہی رات میں دو چھاپوں کے دوران اہم ریکارڈ، لیپ ٹاپ، کمپیوٹرز اور سی سی ٹی وی فوٹیج قبضے میں لے لی گئیںاس دوران اومنی گروپ کے تین ملازمین سے 4 گھنٹے تک پوچھ گچھ بھی کی گئی تاہم انہیں گرفتار نہیں کیا گیا چھاپے کے دوران اومنی گروپ کے دفتر کے اطراف رینجرز کی بھاری نفری تعینات رہی،نیب میں زیر تفتیش معاملات پر ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید کے اومنی گروپ کی شوگر ملز چلانے کے لئے سندھ حکومت کی جانب سے بھاری رقوم سبسڈی کی مد میں دی گئیں،تحقیقات میںیہ بھی پتہ چلا ہے کہ سندھ حکومت کو سبسڈی کیساتھ اضافی مراعات بھی دی گئیں جس کی وجہ سے پورے سندھ کی شوگر ملوں کے مقابلے میں 70 فیصد سے زائد فائدہ صرف اومنی گروپ کو پہنچتا تھا حالانکہ سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید کے اومنی گروپ کی 14 شوگر ملیں ہیں جبکہ سندھ میں قائم شوگر ملوں کی تعداد 30 ہے اس کے باجود حکومت کی جانب سے سبسڈی کا 70 فیصد سے زائد حصہ اومنی گروپ کی ملوں کو جاتا تھا اور دیگر کو صرف 30فیصد ہی ملتا تھا۔ دریں اثنا ماڈل ایان علی کے بینک اکاؤنٹ میں منی لانڈرنگ میں استعمال ہونے والے 77 بینک اکاؤنٹس میں سے ایک سے ٹرانزیکشن کا انکشاف ہوا ہے ، ایف آ ئی اے میں جاری منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کے دوران ایان علی کے اکاؤنٹ میں کی گئی ٹرانزیکشن کے شواہد سے منی ٹریل ریکارڈ کے ساتھ جے آئی ٹی سربراہ اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن کو مطلع کردیا گیا ہے جس کو سپریم کورٹ میں منی لانڈرنگ کیس کے حوالے سے ہونے والی آئندہ سماعت میں جے آئی ٹی کی منی لانڈرنگ کیس میں پیش رفت کی رپورٹ کا حصہ بناکر پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق ایان علی کے بینک اکاؤنٹ میں اعلیٰ شخصیات کی ہدایات پر کی جانے والی رقم کی ترسیل کے زریعے بیرون ملک رہائش اور کھانے پینے کے علاؤہ شاپنگ کے اخراجات کے لئے ادائیگیاں بھی کی گئیں۔ تاہم کراچی میں منی لانڈرنگ کی تحقیقات سے جڑے زرائع نے تحقیقات میں ایان علی کا نام آنے کی تصدیق کی ہے ،لیکن تحقیقات سے منسلک 6 میں سے ایک تفتیشی افسر ٹرانزیکشن سے بیرون ملک ادائیگیوں کی تصدیق کر نے سے انکار کرتے ہوئے بتایا کہ فی الوقت زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ذرائع کے بقول 29 بے نامی اکاؤنٹ سے تحقیقات میں جو مزید 38 اکاؤنٹ سامنے آئے ہیں ان میں رقم ڈالنے والے اور رقم نکلوانے والے 334افراد میں ایان علی شامل ہیں تاہم ان کو بینیفشری کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے یعنی ایسے افراد جنہیں منی لانڈرنگ میں استعمال ہونے والے اکاؤنٹس میں رقم ڈالنے والوں نے فائدہ پہنچایا ۔ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی اسی درجہ بندی میں شامل ہیں ،جبکہ انور مجید، اے جی مجید، زین ملک اور ڈی بلوچ کمپنی کے مالکان اکاؤنٹس میں رقم جمع کرانے والوں میں شامل ہیں ،جن کے خلاف کرمنل رول کے تحت تحقیقات کی جارہی ہیں۔
اسلام آباد ( محمد فیضان) ایف بی آر گزشتہ دو تین سا ل سے ماڈل ایان علی کے خلاف اس کے بینک ا کا ئونٹس اور منی لا نڈرنگ کی تحقیقات اورثبوت دبا کر بیٹھا ہے۔ ایف بی آر ذرائع کے مطابق ڈا ئریکٹوریٹ ان لینڈ ریونیو انٹیلی جنس کے پا س ما ڈل ایان علی کے خلاف کرنسی اسمگلنگ کے کیس میں کی جانے والی تحقیقا ت میں حیرت انگیز ا نکشافات سامنے آ ئے تھے ۔ایف بی آ ر کو ماڈل اٰیان کے ذریعے بڑے پیمانے پر منی لا ندرنگ کے ثبوت مل گئے تھے ،جبکہ ان تحقیقات میں ہی ایان کے نام پراکا ونٹس میں کروڑوں روپے کی غیر قا نونی ٹرا نزیکشن سامنے آ چکی تھیں اور ڈائریکٹوریٹ انٹیلی جنس کے ہا تھ ملک کی ایک اہم سیاسی شخصیت کے فرنٹ مین تک پہنچ گئے تھے ،مگر اس وقت کے چیئرمین ایف بی آر اور موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈارکے کہنے پر ڈائریکٹر جنرل ان لینڈ ریونیو انٹیلی جنس کو ماڈل ایان علی کے خلاف کا رروا ئی سے روک دیا اورایان کے خلاف عدالت میں دائر کیے جانے کے لیے تیا ر ریفرنس پر مٹی ڈال کر تحقیقا ت دبا دی تھیں ۔ذرا ئع کے مطابق ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ ا نٹیلی جنس اور ایف بی آ ر کے کئی اعلیٰ ا فسران ان تحقیقات سے واقف تھے مگراب ایف آ ئی اے کی کوششوں سے ایان علی کا نام پر بینک اکا ونٹ سے منی لا نڈرنگ کا معا ملہ سامنا آ نے کے با و جود ایف بی آ ر کی جانب سے اب بھی مسلسل خاموشی اور ایف آ ئی اے کے ساتھ عدم تعاون انتہا ئی معنی خیز قرار دیا جا رہا ہے۔