گندم خریداری میں کرپشن کیلئے جعلی اکاونٹس استعمال کرنے کا انکشاف

کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے کاروبار سے آشنا محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا نے گندم خریداری کیلئے جعلی اکاؤنٹس کا سہارا لیا ہے۔ اس حوالے سے صرف ایک ضلع سکھر میں 65 کروڑ کی ادائیگی کا اسکینڈل سامنے آنے پر انکوائری شروع کی گئی ہے جبکہ مذکورہ ضلعی میں 4 لاکھ بوری باردانہ کی خورد برد اور 27 مراکز انچارجز کی خلاف ضابطہ تعیناتی کی بھی انکوائری شروع کردی ہے۔ اس ضمن میں مقرر کردہ انکوائری افسر سیکریٹری محکمہ جی اے نے محکمہ خوراک سے تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ سیکریٹری خوراک ڈاکٹر محمد نواز شیخ حج کی سعادات حاصل کرنے کیلئے رخصتی پر جانے کے بعد جن افسر کو سیکریٹری محکمہ خوراک کے عہدے کا اضافی چارج دیا گیا تھا انہیں شکایت ملی تھی کہ 2018 میں گندم کی خریداری کے دوران ضلع سکھر میں خریدی گئی گندم کی ادائیگی کی مد میں تقریباً 18 جعلی اکاؤنٹس میں تقریباً 65 کروڑ روپے محکمہ خوراک کے سرکاری اکاؤنٹس سے منتقل کئے گئے ہیں اور اس کے علاوہ ضلع سکھر میں باردانے کی تقریباً 4 لاکھ بوری میں بھی خورد برد کی گئی اور گندم خریداری کے تقریباً 27 مراکز پر خلاف ضابطہ انچارج تعینات کئے گئے۔ اس ضمن متعلقہ سیکریٹری نے چیف سیکرٹری سندھ کو ستمبر کے آخر میں نوٹ ارسال کیا تھا جس کا چیف سیکریٹری سندھ میں ممتاز شاہ نے نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری محکمہ جنرل ایڈمنسٹریشن (جی اے) کو انکوائری افسر مقرر کرتے ہوئے انہیں 15 دن میں رپورٹ دینے کی ہدایت کی۔ ذرائع کے مطابق اس ضمن میں سیکریٹری ”جی اے“ کی جانب سے 5 اکتوبر کو سیکریٹری صوبائی محکمہ خوراک کو لیٹر ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ خورد برد کے حوالے متعلقہ افسران و ملازمین کی نشاندہی کی جائے جنہیں طلب کرکے ان کا بیان ریکارڈ کئے جائیں اور اس حوالے سے بریفنگ بھی دی جائے تاکہ انکوائری مکمل کی جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ انکوائری میں اس معاملے کو دیکھا جائے گا کہ مارچ 2018 سے جون 2018 تک گندم کی خریداری کے عمل کے دوران سکھر ریجن کے ڈپٹی ڈائریکٹرز، ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈی ایف بند سمیت گندم کے خریداری مراکز کے انچارج کون، کون رہے ہیں اور ان کی تعیناتی کس نے کی ہے اور کیسی ہوئی ہے۔ اور اس دوران محکمہ خوراک کے گندم کی ٹرانسپوٹیشن کے ٹھیکیدار کون رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق قانون کے مطابق محکمہ خوراک کے عملے کو کسی بھی بیوپاری آڑھتی اور ٹرانسپوٹیشن وغیرہ کے ٹھیکیدار گندم نہیں خریدنی ہے گندم صرف گندم کی خریداری مراکز کے علاقے میں آنے والے آبادگاروں سے خریدنی ہے۔ ایک گندم کی خریداری کے مرکز کے انچارج کسی اور مرکز کے آبادگار سے بھی گندم نہیں خریدنی ہے آبادگاروں کو خریدی گئی گندم رقم کراس چیک کے ذریعے ادا کی جاتی ہے تاکہ پتا چلے کہ سرکاری اکاؤنٹس سے گندم کی ادائیگی کی رقم کس اکاؤنٹ میں کتنی ہوئی۔ ذرائع کے کہنا ہے کہ گزشتہ چند برس سے محکمہ خوراک کے ایک اعلیٰ انتظامی افسر نے کیش کے عیوض باردانے کی تقسیم کے امور کو خود کنٹرول کررہے تھے اور کمیشن مافیا کے اصل سرغنہ وہی رہے ہیں جنہوں نے یہ فی بوری باردانے پر تقریباً 300 روپے کمیشن بنوانے کے معاملات میں بیوپاریوں وغیرہ کے ساتھ محکمہ خوراک کی گندم ٹرانسپوٹیشن کے ٹھیکیداروں کو بھی شامل کردیا تھا جنہیں لاکھوں بوری گندم دی جاتی اور مذکورہ ٹھیکیدار اور بیوپاری جو گندم دیتے تھے اس کی رقم کی ادائیگی مختلف اضلاع کے مختلف مرکز سے کی جاتی تھی۔ ذرائع کا کہنا کمیشں مافیا کے سرغنہ کی جانب سے ٹھیکیداروں وغیرہ کو براہ راست باردانہ دیا جاتا ہے۔ اس باردانے میں آنے والی گندم کی ادائیگی کیلئے یہ بعض مراکز کے انچارج اعتراضات کرتے تھے کہ ان کے مراکز سے باہر خریدی گئی گندم کی ادائیگی وہ کس کے اکاؤنٹس میں کریں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے کا حل یوں نکالا گیا کہ مختلف افراد کے نام یہ جعلی اکاؤنٹس کھلواکر ان اکاؤنٹس کے ذریعے رقم ادا کی گئی صرف ضلع سکھر میں ایسے 18 جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے 65 کروڑ روپے کی ادائیگی کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ جعلی اکاؤنٹس کی مشاورت میں بھی محکمہ خوراک کے اعلیٰ افسر شامل رہا ہے کیونکہ اس حوالے سے انہیں پہلے سے تجربہ حاصل تھا۔ محکمہ خوراک میں باردانے پر اربوں روپے جو کمیشن کی مد میں بٹورے جاتے تھے اس رقم کا طے شدہ حصے کی رقم متعلقہ افراد تک پہنچانے کیلئے ان کے بتائے گئے جعلی اکاؤنٹس میں جمع کرائی جاتی۔ جس کی ایف آئی اے انکوائری کررہی ہے۔ ضلع سکھر میں 27 گندم خریداری مراکز کے انچارج خلاف ضابطہ تعینات ہونے کے حوالے سے روزنامہ ”امت“ نے گندم کی خریداری کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے دوران بھی انہی جگہ میں کردی تھی۔ اس کام کی نگرانی محکمہ خوراک کے مذکورہ اعلیٰ افسر کے چہیتے ملازم کے سپرد کی گئی تھی جو کہ اصل میں لاڑکانہ ریجن کے ملازم ہیں جنہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف محکمہ خوراک کی اسٹیبلشمنٹ سیکشن کے گریڈ 16 کے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر مسلط کیا گیا جو اب تک وہاں موجود ہے۔ مذکورہ ملازم نے متعلقہ مرکز پر گندم خریدای کے ہدف کو مدنظر رکھتے ہوئے فی مرکز کے انچارج کی خریداری 10 سے 15 لاکھ روپے رشوت لے کر کی تھی جس میں کئی ایسے فوڈ سپروائز اور انسپکٹر کو بھی تعینات کیا گیا تھا جو پہلی ہی گندم کی خورد برد کی انکوائریوں اور کیس میں ملوث تھے۔ محکمہ خوراک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انکوائری کے سلسلے میں محکمہ خوراک کے ڈپٹی ڈائریکٹر سکھر ریجن اور ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر سے ریکارڈ طلب کیا گیا ہے۔ مذکوہ ریکارڈ کے سامنے آنے اور انکوائری مکمل ہونے پر ہی پتا لگ سکے گا کہ اصل معاملہ کیا ہے اور اس میں کتنی صداقت ہے۔

Comments (0)
Add Comment