کراچی (اسٹاف رپورٹر) کراچی فشری پر بلوچستان جانے والی لانچوں کے مالکان اور ماہی گیر سمندری وڈیروں کی چیرہ دستیوں سے سخت پریشان ہیں۔ لانچ مالک حاجی سومار کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتوں اور کرپٹ اداروں نے ہمیں ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ اب پاکستان میں بھی سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیر لائسنس بنوا کر شکار کریں گے۔ فیصل الرحمن کا کہنا ہے کہ اگر جائز ٹیکس لگا دیں تو لانچ مالکان سالانہ ٹیکس ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ سندھ اور بلوچستان حکومتیں ملکر معاملہ حل کرائیں۔ ان کا روزگار خراب ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کروڑوں روپے کی لانچ قرضے پر خریدی تھی، اب خسارہ ہو رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بحیرہ عرب میں پکڑی گئی مچھلیاں بیرون ملک جاتی ہیں اور مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں، جبکہ سندھ کے سمندر میں شکار کم ہے۔ محمد سمیر کا کہنا تھا کہ بلوچستان جانے والی لانچوں کے مالکان اور ماہی گیر پہلے ہی پریشان ہیں کہ بلوچستان فشریز کا نام استعمال کرنے والے سمندری وڈیروں کے مسلح لوگ لانچوں پر گشت کرتے ہیں اور 20، 30ہزار بھتہ وصول کرکے جانے دیتے ہیں۔ رحیم نامی ماہی گیر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کا محکمہ فشریز سنجیدہ ہو کر اس مسئلے کو حل کرائے۔ ماہی گیر وہاب کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی 12 ناٹیکل میل کی سمندری حدود ہے، جہاں سے کراچی کے ماہی گیروں کو واپس کردیا جاتا ہے اور صرف بھتہ دینے والوں کو جانے دیتے ہیں۔