حیدر آباد (بیورورپورٹ) حکومت سندھ نے سرکاری اسپتالوں کی نجکاری کر کے اربوں روپے کرپشن کی نذر کر دیئے ۔سابق منظور نظر بیوروکریٹس کے زیر سایہ تنظیموں پی پی ایچ آئی،اور ایم سی ایچ سی نے گڈگورننس کے ذریعے صحت کی سہو لتوں میں اضافے کی آڑ میں 2 ارب 37 کروڑ سے زائد کی رقم ٹھکانے لگا دی۔ اس سلسلے میں ایک رپورٹ نے محکمہ صحت میں اصلاحات کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ سندھ میں شعبہ صحت میں انتظامی اصلاحات کے نام پر حکومت نے سرکاری رورل ہیلتھ سینٹرز بیسک ہیلتھ سینٹرز اور تحصیل اسپتالوں کے علاوہ کچھ ضلعی اسپتالوں کا انتظام بھی ان نجی تنظیموں کو سونپا تھا ،جن کا دعوی ٰتھا کہ ان کے پاس بین الاقوامی سطح کے انتظامی ماہرین کی ٹیم ہے اور وہ گڈگورننس سے اسپتالوں کی کارکردگی کو نمایاں طور پر بہتر بنائیں گے ۔یہ این جی اوز قسم کی تنظیمیں با اثر اعلی ٰسابق سرکاری افسران کی سرکردگی میں کام کر رہی ہیں ۔انہیں بعض حکومتی شخصیات اور اعلی افسران کی بھی سرپرستی حاصل ہے ۔ان تنظیموں کو ون لائن بجٹ جاری ہوتا ہے جو یہ جس طرح جہاں چاہیں خرچ کریں ،جس ڈاکٹر اور ملازم کو جتنی تنخواہ پر رکھیں اور جب چاہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ،محکمہ صحت کے ایک سابق اعلی افسر نے بتایا کہ ان منظور نظر تنظیموں کو غیرمعمولی فنڈز جاری کئے جاتے ہیں ۔ایسی بھی مثال ہے کہ جس دیہی اسپتال کا بجٹ 25 لاکھ تھا وہ جب پی پی ایچ آئی کو سونپا گیا تو اسے سوا کروڑ کا بجٹ جاری کیا گیا ،تا کہ واپس زیادہ حصہ مل سکے ۔ سندھ کے حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والے محکمہ صحت کے اعلی افسر نے اس طرح غیر معمولی فنڈز جاری کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پی پی ایچ آئی ان میں خصوصاً زیادہ با اثر افراد کی تنظیم ہے ۔ذرائع کے مطابق ایک رپورٹ میں ان نجی تنظیموں کو جاری کردہ 2 ارب 37 کروڑ 93 لاکھ روپے کی رقم میں سے بڑی رقم خورد برد کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ صوبے بھر میں شعبہ صحت کی مینجمنٹ کی رقم میں سے پی پی ایچ آئی نے بیسک ہیلتھ یونٹس، رورل ہیلتھ سینٹر اور تعلقہ اسپتالوں کے ملازمین کے نام پر یہ رقم خورد برد کی ہے ۔گریڈ 1سے گریڈ 20کے افسران و ملازمین کے سیلری اکاؤنٹ میں یہ رقم جاری کی جاتی رہی تھی۔ پتہ چلا ہے کہ حالیہ دنوں میں سرکاری طور پر چھان بین میں محکمہ صحت اور پی پی ایچ آئی اخراجات کے بل وائوچرز اور دیگر مطلوبہ کاغذات پیش نہیں کر سکے ۔ اس لئے تفصیلی تحقیقات کی سفارش کی گئی ہے۔