اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ) سپریم کورٹ نے فیض آبادمیں تحریک لبیک یارسول اللہؐ کے دھرنے کے مقدمے میں الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے خلاف کارروائی کے اختیار پر جواب طلب کر لیا ہے جبکہ دھرنا آپریشن کے دوران پیمرا سے چینلز کی نشریات بندش کی رپورٹ بھی طلب کرتے ہوئے سماعت نومبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔مذہبی جماعت کےفیض آباددھرنے پرلئےگئے نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ریاست کی حفاظت کرنے والے اپنا کام نہیں کر رہے، کبھی ایک ادارے میں مداخلت ہوتی ہے کبھی دوسرے ادارے میں۔جسٹس مشیرعالم اورجسٹس قاضی فائز پرمشتمل دو رکنی عدالتی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ عدالت میں سیکرٹری دفاع بھی پیش ہوئے۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ وزارت دفاع نے رپورٹ جمع کرا دی ہے، عدالت نے جو سوالات اٹھائے ان کے جوابات رپورٹ میں دیے گئے ہیں۔جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کہ کیا دھرنا دینے والی تحریک لبیک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے؟ اس کو کب رجسٹرڈ کیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحریک لبیک کو دھرنے سے پہلے رجسٹرڈ کیا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسی نےپوچھا مسٹر اٹارنی جنرل، دھرنے پر آپ کا موقف کیا ہے؟ کیا دھرنے میں جو سرگرمیاں ہوئیں وہ قانونی تھیں؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ دھرنا غیر قانونی اور غیر آئینی تھا، احتجاج کرنآئینی حق ہے لیکن لوگوں کی آمدورفت کو مفلوج کرنا غیر آئینی ہے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ احتجاج کرنا دھرنے والوں کا آئینی حق تھا لیکن جس انداز سے احتجاج ریکارڈ کیا وہ غیر آئینی تھا، قانونی مقصد کے لیے غیر قانونی اقدام بھی غیر آئینی ہو گا۔ جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ کیا کوئی بھی شخص اپنی سیاسی جماعت رجسٹرڈ کروا سکتا ہے؟۔ اس پر کیلئے کوئی شرائط یا قانون نہیں ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ سیاسی جماعت رجسٹرڈ کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو ہے۔جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن غیر قانونی سرگرمی میں ملوث سیاسی جماعت کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایسی سیاسی جماعت کی رجسٹریشن منسوخ کر سکتا ہے۔سیکرٹری دفاع اکرام الحق نے عدالت کوبتایا کہ 25 اگست کو اپنا عہدہ سنبھالا۔جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ بعض چینلز کی نشریات کئی مقامات پر بند کی گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ نشریات کی بندش یااخبار بندکرنے کی بات درست نہیں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا سچ بولتے ہوئے شرم آتی ہے، پیمرا نے خود نشریات کا بند ہونا تسلیم کیا، اگر کسی نے نشریات یا اخبار بند کیا تو کارروائی کریں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ سمجھ نہیں آتا کوئی جھوٹی شکایت کیوں کرے گا، ڈان اخبار کی ترسیل بند کی گئی، ڈان اخبار قائد اعظم نے بنایا تھا، کیا آپ کو قائداعظم سے محبت نہیں؟۔اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا کہ میرے دفتر میں قائداعظم کی 22 تصاویر ہیں، مجھے قائداعظم سے محبت ہے۔جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ سیاسی جماعت کے کنڈکٹ کو دیکھنے کیلئے الیکشن کمیشن کا کوئی کردار نہیں، کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر کاروائی کون کرتا ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیاسی جماعتوں کے قانون میں ایسی کوئی شق نہیں۔ جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کہ کیا ملکی سالمیت کے خلاف کام کرنے والی پارٹی رجسٹرڈ رہ سکتی ہے؟۔ جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ کیا القاعدہ کی بطور سیاسی جماعت رجسٹریشن ہو سکتی ہے؟۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ القاعدہ پرتشدد ہونے کے باعث رجسٹر نہیں ہو سکتی۔ جسٹس قاضی فائز نےپوچھا کہ کیا ریاست تشدد سے بات منوانے کی اجازت دے سکتی ہے؟۔ کیا ڈی جی پیمرا عہدے پر رہنے کے قابل ہیں؟۔جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ یہ پولیس سٹیٹ نہیں ہے، کیوں نہ میڈیا سے پوچھا جائے، جو چینل ایجنڈا فالو نہیں کرتا اسے ڈنڈا مارا جاتا ہے۔عدالت نے سماعت نومبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔