اسلام آباد( اخترصدیقی ) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات میں بڑے اپ سیٹ کاامکان ہے ،وکلاء برادری کے سینئررہنما علی احمدکردکی امان اللہ کے خلاف انتخابات میں جیت کے امکانات کم بتائے جارہے ہیں۔امان اللہ کنرانی نے سال بھرانتخابی مہم چلائی جبکہ علی احمدکرد نے اچانک ہی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کرکے وکلاء کو حیران و پریشان کردیا ۔عاصمہ جہانگیرکے انتقال کے بعدسے ا ن کاگروپ بھی تین دھڑوں میں تقسیم ہو چکاہے ،علی احمدکردمسلسل میاں نوازشریف کی حمایت کرتے آ رہے ہیں ان سے جیل میں بھی ملاقات کیلئے گئے تھے جبکہ حامدخان کا گروپ اسی طرح سے متحدہے۔علی احمدکردعاصمہ جہانگیرگروپ کے امیدوار ہیں جبکہ امان اللہ کنرانی کو حامدخان گروپ کی حمایت کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی، تحریک انصاف ، لاہور کے مقامی چوہدری گرو پ کی حمایت بھی حاصل ہے ۔ ذرائع نے روزنامہ امت کو بتایا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات 2018-19کے لیے میدان سج چکاہے اور اس بار صدارت کیلئے بلوچستان کے وکلاء کی باری ہے اس لیے وہاں سے دو مضبوط امیدوارا ن اس وقت میدان میں ہیں ۔3ہزار سے زائد وکلاء اپناحق رائے دہی استعمال کریں گے انتخابات رواں ماہ کی اکتیس تاریخ کوہوں گے جبکہ نئی کابینہ یکم نومبرکواپنے اختیارات حاصل کرے گی ۔سپریم کورٹ بار کے انتخابات اس باروکلاء کی حدتک نہیں بلکہ ایک لحاظ سے سیاسی حیثیت اختیارکرچکے ہیں ۔ ذرائع نے مزیدبتایاکہ ان انتخابا ت پر بھی اب لاکھوں نہیں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور پوراپاکستان ہی اس کاحلقہ قرار دیاجاتاہے جہاں جہاں بھی سپریم کورٹ کے رجسٹرڈوکلاء موجودہیں وہ ان انتخابات میں ووٹ ڈالنے کاحق رکھتے ہیں ۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات2018-19 کیلئے رجسٹرڈ وکلا کی ووٹرلسٹ تیار کرلی گئی فہرست کے مطابق سب سے کم 196ووٹرز کا تعلق بلوچستان جبکہ سب سے زیادہ 2067 کا تعلق پنجاب سے ہے ،سندھ کے کل وکلاء کی تعداد 504 اور خیبر پختونخواہ سے 280 وکلا سپریم کورٹ بار کے ارکان ہیں ،تازہ فہرست کے مطابق بہاولپور میں89وکلا، راولپنڈی اسلام آباد میں 484، لاہور سے 1291,ملتان سے 203وکلارائے حق دہی استعمال کریں گے۔عاصمہ جہانگیرگروپ کولاہور ،کراچی ،پشاور اور کوئٹہ میں اکثریت ملتی رہی ہے مگراس با راپ سیٹ ہونے کاامکان ہے عاصمہ جہانگیرکی وفات کے بعدسے ان کے گروپ کولیڈکرنے کے لیے فی الوقت کوئی قیادت موجودنہیں اس گروپ کاابھی تک عاصمہ جہانگیرگروپ کاہی نام دیاجارہاہے مگراس کے بعداب مزیدتین گروپ بن چکے ہیں اور تینوں گروپ اپنی اپنی الگ الگ حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کوووٹ ڈالیں گے ۔دوگروپ جن میں چوہدری گروپ اور انصا ف گروپ امان اللہ کنرانی کوووٹ دینے کی کمٹنمٹ کرچکے ہیں جبکہ صرف ایک گروپ علی احمدکردکے اچانک سامنے آنے پر انھیں ووٹ دینے کے لیے تیارہواہے ۔دوروزقبل حامدخان گروپ نے لاہو رمیں اپنی بھرپور قوت کابھی مظاہرہ کیاہے اور پاکستان بھرسے وکلاء لاہور پہنچے اور وہاں انھوں نے امان اللہ کنرانی کوسپورٹ کرنے کی حامی بھری جبکہ دوسری جانب علی احمدکردبھی ملک بھرمیں مسلسل ہنگامی دورے کررہے ہیں وہ پہلے کوئٹہ ،کراچی اسلام آباداور اس کے بعدوہ لاہور پہنچے ہیں جہاں وہ وکلاء ربرادری کومطمئن کرنے میں مصروف ہیں تاہم وکلاء برادری کی غالب اکثریت نے ان سے کہاہے کہ آپ نے دیرسے انتخابات میں حصہ لینے کافیصلہ کیاہے تاہم اس بارے سوچ وبچارکی جارہی ہے کہ اس بارکسے ووٹ دیاجائے کردکے میدان میں اترنے کے بعد کنرانی کے لیے مقابلہ سخت ہوگیاہے جس میں دونوں امیدواران ایڑی چوٹی کازور لگارہے ہیں ۔کردکے ساتھ بیرسٹراعتزازاحسن ،منیراے ملک ،اور دیگروکلا ہیں دوسری جانب امان اللہ کنرانی کے ساتھ اکرام چوہدری ،حامدخان ،احسن بھون ،کلیم اللہ ،سردار عصمت اللہ ،توفیق آصف اور دیگررہنماء شامل ہیں ۔