اب سب ججز کا احتساب ہوگا – چیف جسٹس

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے لاہور ہائی کورٹ کی سپروائزری کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے رجسٹرار ہائی کورٹ کو طلب کرلیا ہے اور ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل بہت فعال ہے، سب ججوں کا احتساب ہوگا، سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت عدلیہ کی نگرانی کے قواعد سے متعلق کیس کی سماعت کی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لوگ انصاف کے لئے چیخ اور مررہے ہیں، وہ بلک رہے ہیں کہ عدالتوں میں کام نہیں ہو رہا۔ مراعات اور گاڑی کا تو سب مطالبہ کرتے ہیں، اب یہ بتائیں کہ کس نے کتنا کام کیا،اب کام نہ کرنے والے ججز ٹارگٹ ہیں، جو جج کام نہیں کررہے انہیں کام کرنا ہوگا،اب کسی کے ساتھ رعایت نہیں ہوگی، ہماری طرف سے ہائی کورٹس، ٹربیونل اور ماتحت عدلیہ پر یہ بات واضح ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل اب بہت فعال ہے اور ججز کے بھی احتساب کا عمل شروع ہوچکا ہے اور اب سب ججز کا احتساب ہوگا،کم کیسز کے فیصلے کرنے والے ججز کے خلاف بھی آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی ہوگی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بنچ نمبر ون نے سات ہزار کیس نمٹائے، ججز سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں 20 کیس نمٹائے۔جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کم کیسز کے فیصلے کرنے والے ججز کے خلاف بھی آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی ہوگی اور ججز کو چھٹی والے دن کی تنخواہ نہیں ملے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ اپنی سپروائزری ذمے داریوں میں ناکام نظر آتی ہے،کیا ہم ہائیکورٹ کی نگراں کمیٹیوں کے ججز کو چیمبر میں بلا کر کارکردگی پوچھیں۔چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا اگر کہیں ہائیکورٹ کے سپروائزری کردار سے مطمئن نہیں تو کیا کہیں گے جس پر انہوں نے جواب دیا آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ کل ٹرسٹ اراضی کیس میں مظفرگڑھ کے سول جج پیش ہوئے، جج نے بتایا کہ ایک ماہ میں صرف 22 مقدمات کا فیصلہ کیا، کیا ہائی کورٹ نے اس جج سے باز پرس کی؟ ہم روزانہ 22 مقدمات کے فیصلے کرتے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ سفارش کی بیماری کو ختم کرنا ہوگا۔لاہور ہائی کورٹ کارکردگی پر چیف جسٹس نے رجسٹرار ہائی کورٹ کو طلب کر لیا اور سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی۔

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ فیصلوں میں تاخیر نظامِ انصاف میں ناسور کی صورت اختیار کر چکی ہے، کفر کا معاشرہ قائم رہ سکتا لیکن جہاں بے انصافی کا عروج وہاں معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا،معاشرے میں جھوٹ سرایت کرچکا ہے جس نظام کا ڈھانچہ جھوٹ اور بد دیانتی پر مبنی ہو وہ کیسے ڈیلیور کرے گااپنے قوانین کو اپ ڈیٹ کرنا ہوگا۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نےکہا کہ میرے باپ نے بڑی محنت سے مجھے حلال کا رزق کھلایا ہے، پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ملک نہ ہوتا تو چھوٹا موٹا افسر ہوتا، میں آج جو کچھ ہوں، اپنے پروفیشن کی وجہ سے ہوں۔چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں کہا کہ جس نظام کا ڈھانچا جھوٹ پر کھڑا ہو وہ کیا ڈلیور کرے گا، جس معاشرے میں بے انصافی ہو گی وہ قائم نہیں رہ سکتا اور جس معاشرے میں جھوٹ سرایت کر جائے وہ ملک کیا ترقی کرے گا۔انہوں نے کہا کہ معاشرے میں عدلیہ کو اعلیٰ مقام حاصل ہے، ججز پوری ایمانداری سے فیصلے کریں اور جتنی تنخواہ لیتے ہیں اتنا کام بھی کریں، ججز کئی کئی روز تک مقدموں کی سماعت نہیں کرتے، کتنے کتنے دن کیس ججز کے پاس پڑے رہتے ہیں، ججز ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو کیس زیرِ التوا ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمارے لیے اللہ کی نعمت کی طرح ہے جو بہت سی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا، اسے کسی نے خیرات میں نہیں دیا، پاکستان جیسا ملک نصیب والوں کو ملتا ہے، ہم آج جو کچھ بھی ہیں اپنے ملک پاکستان کی بدولت ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بابا رحمتے کا کردار وہ ہے جو ایک معاشرے میں منصف کا کردار ہے، جس کے پاس لوگ جاکر اپنا مسئلہ بیان کرتے ہیں اور وہ بابا رحمتے اپنی ذہانت اور ایمانداری سے فیصلہ کرتا ہے۔قوانین کا ازسرنوجائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے،انہوں نے کہا کہ 61برس بعد خاتون کو 15 دن میں انصاف دیا گیا جب جج ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو انصاف فراہم نہیں کیا جا سکتا۔

Comments (0)
Add Comment