کراچی(اسٹاف رپورٹر )ایف آئی اے فارنسک کا شعبہ ملک بھر میں غیر فعال ہوگیا ۔ تمام سرکلوں میں دہشت گردی ،منی لانڈرنگ ،حوالہ ہنڈی اور سائبر کرائم کے متعدد کیس فارنسک رپورٹس نہ ملنے کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں ،جبکہ ایف آئی اے فارنسک شعبہ کے ایک بااثر ڈپٹی ڈائریکٹر جو کہ لاہور سے کراچی خصوصی فرمائش پر تین برس قبل ایک کیس پر تحقیقات کے لئے لائے گئے تھے ،انہوں نے واپس جانے کے بجائے اپنا آرڈر مستقل طور پر کراچی سائبر کرائم میں کروالیا ،گزشتہ دنوں ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے فارنسک غفار کو کراچی سے لاہور ٹرانسفر کرنے کا آرڈر اسلام آباد سے جاری ہوا ،تاہم حیرت انگیز طور پر اگلے ہی روز اثر رسوخ کے باعث یہ آرڈر تبدیل کردیا گیا ۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق کائونٹر ٹیررازم ونگ سرکل ،اینٹی کرپشن سرکل ،اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل ،کمرشل بینکنگ سرکل ،اسٹیٹ بینک سرکل اور کارپوریٹ کرائم سرکل میں کئی مقدمات اور انکوائریاں ایسی ہیں ،جوکہ صرف فارنسک رپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے التوا کا شکار ہو رہی ہیں ۔ کئی کیسوں میں فارنسک رپورٹیں ایک برس سے زائد کا وقت گزرجانے کے باجود بھی تفتیشی افسران کو نہیں مل سکی ہیں ۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کے کسی بھی سرکل میں انکوائریوں میں ملزمان کے خلاف شواہد حاصل کرنے کے لئے الیکٹرونک ڈیوائسز،موبائل ،لیپ ٹاپ وغیرہ سے ڈیٹا ریکور کرکے اس کی رپورٹ ایف آئی اے فارنسک ڈپارٹمنٹ سے ہی بنوائی جاتی ہے۔ اسی طرح ایف آئی اے کے مقدمات میں گرفتار ہونے والے ملزمان کے قبضے سے بر آمد ہونے والے موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کے علاوہ الیکٹرونک ڈیوائس کا ریڈ رپورٹ اور عبوری چالان میں تذکرہ کردیا جاتا ہے ،تاہم عدالت کو بتایا جاتا ہے کہ اس سامان کی فارنسک رپورٹ بعد میں جمع کروائی جائے گی ،جس میں فارنسک ڈپارٹمنٹ سے مصدقہ رپورٹ ثبوت اور شواہد کے ساتھ منسلک ہونگے ،تاہم بعد ازاں عدالتیں اور تفتیشی افسران فارنسک رپورٹ کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں اور یہ رپورٹیں موصول نہیں ہوتیں ۔ ذرائع کے بقول دہشتگردی ،منی لانڈرنگ ،حوالہ ہنڈی کے کئی بڑے کیسوں میں بڑے نیٹ ورک اور ماسٹر مائنڈ صرف اس لئے بے نقاب نہیں کئے جاسکے کہ ایف آئی اے فارنسک ڈپارٹمنٹ سے رپورٹیں ہی موصول نہیں ہوسکی اور یہ انکوائریاں اور مقدمات ابتدائی تحقیقات میں سامنے آنے والے ثبوت اور شواہد کے ساتھ ہی عدالتوں میں چلائے گئے ۔اسٹیٹ بینک سرکل میں حالیہ عرصے میں افغانستان اور ایران سے پاکستان میں چلنے والے منی لانڈرنگ اور حوالہ ہنڈی کے دو نیٹ ورک پکڑے گئے جن کے خلاف انکوائری کے بعد مقدمات درج کئے گئے اور ان مقدمات میں صرف دو ہی افراد کو گرفتار کیا جاسکا ،جبکہ یہ نیٹ ورک کراچی سے بلوچستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ پشاور سے جلال آباد اور چاہ بہار تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ کی ٹیم کے ہاتھوں کالعدم داعش سے منسلک 2خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے بعد ان دونوں سے بر آمد ہونے والی ایک درجن سے زائد یو ایس بی ڈیوائس فارنسک جانچ پڑتال کے لئے ایف آئی اے فارنسک افسران کو بھجی گئیں ،تاہم اس اہم ترین کیس پر بھی فارنسک ڈپارٹمنٹ کی جانب سے رپورٹیں تیا ر کرکے ارسا ل نہیں کی گئیں ،جس سے دہشت گردی کا اہم کیس متاثر ہوا ،کیونکہ دونوں دہشت گردوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ پاکستان میں کالعدم داعش کے سوشل میڈیا نیٹ ورک کے اہم رکن تھے اور ان کے کالعدم داعش کے پاکستان اور افغانستان کے سوشل میڈیا انچارج سے قریبی تعلق تھا۔ ملزمان کے انکشافات کے مطابق دونوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے داعش کے لئے جتنا بھی کام کیا تھا وہ تما م ریکارڈ اور رابطے جس میں داعش کے کارکنوں کی سوشل میڈیا آئی ڈیز اور آپسی گفتگو اور پیغامات شامل تھے یہ تمام چیزیں انہوں نے سوشل میڈیا سے ڈیلیٹ کرنے کے بعد یو ایس بیز میں محفوظ کر رکھی تھیں جو کہ درجنوں گیگا بائٹس کا ڈیٹا تھا اور اس ڈیٹا سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فارنسک رپورٹ ملنے کے بعد اہم معلومات حاصل ہوسکتی تھیں۔ذرائع کے بقول ایف آئی اے فارنسک کے ڈپٹی ڈائریکٹر غفار کو تین برس قبل لاہور سے ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل پر فارنسک تفتیش کے لئے کراچی ٹرانسفر کیا گیا ،تاہم تین بر س گزر جانے کے باجود یہ افسر واپس لاہور نہیں گئے ،بلکہ اب انہیں ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم سرکل کراچی تعینات کردیا گیا ہے ،جبکہ فارنسک کے شعبے کا حال یہ ہے کہ اس وقت ایف آئی اے کے دیگر تمام سرکلوں کے علاوہ ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل میں موجود ہزاروں شکایات پر انکوائریاں التوا میں پڑی ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے بلیک میل اور فراڈ کا شکار ہونے والے متاثرین انصاف کے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔ ذرائع کے بقول ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کو 2017کے دوران مجموعی طور پر 2019کمپلین موصول ہوئیں ،جن کی چار قسموں میں درجہ بندی کی جاسکتی ہے ،1592یعنی 76فیصد درخواستیں سوشل میڈیا پر بلیک میلنگ،ہراسمنٹ اور بدنام کرنے کے حوالے سے کی گئیں ،جبکہ 307یعنی 14فیصد درخواستیں مالی دھوکہ دہی کی وارداتوں پر کی گئیں ۔اسی طرح سے 116یعنی 5فیصد درخواستیں ان افراد کی جانب سے دی گئیں ،جنہیں دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوئیں اور باقی مانندہ 186درخواستیں ای میل ہیکنگ اور اسپوف کالنگ سے متعلق تھیں ۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم کے سرکلز کو ملک بھر میں فعال کرنے کے لئے نئے آلات کی خریداری اور آئی ٹی ماہرین کی بھرتیوں کا منصوبہ گزشتہ دو برسوں سے التوا کا شکار ہے ۔ پریونشن آف سائبر کرائم ایکٹ 2016کے موثر نفاذ میں ایف آئی اے افسران مشکلات کا شکارہیں جبکہ پاکستانی حکومت کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے پاکستان کی جانب سے اب تک غیر ملکی ویب سائٹس کے ڈیٹا کے حصول کے لئے عالمی سطح پر ہونے والے معاہدوں میں حصہ نہیں لیا ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا بشمول فیس بک ،ٹوئٹر،واٹس ایپ اور ایسی ہی دیگرویب سائٹس کا ڈیٹا کا حصول بھی ایف آئی اے افسران کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ جب بھی سوشل میڈیا پر پاکستانی خواتین اور شہریوں کی جانب سے سائبر کرائم کی درخواستیں ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کو دی جاتی ہیں تو انکوائری کرنے والے تفتیشی افسران متاثرین کو بلیک میل کرنے اور بدنام کرنے والے افراد کے حوالے سے غیر ملکی ویب سائٹس کی انتظامیہ سے ڈیٹا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس حوالے سے ان ویب سائٹس کو خطوط بھی لکھے جاتے ہیں تاہم اکثر ان تفتیشی افسران کو یہ ڈیٹا موصول نہیں ہوتا کیونکہ امریکہ ،برطانیہ اور یورپ کے علاوہ دیگر ملکوں میں موجود ان ویب سائٹس کی انتظامیہ ایف آئی اے افسران کی درخواستوں کو خاطر میں ہی نہیں لاتے اور ڈیٹا فراہم کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں یا پھر یکسر منع کردیتے ہیں ۔ اس صورتحال میں ایف آئی اے افسران کے لئے تفتیش کو آگے بڑھانا اور سائبر کرائم کی وارداتوں میں ملوث ملزمان کا سراغ لگانا مشکل ہوجاتا ہے ۔ ایک سینئر افسر کے مطابق یہ صورتحال اس لئے ہوتی ہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے اب تک عالمی سطح پر ہونے والے ایسے معاہدوں میں حصہ نہیں لیا جن میں مختلف ممالک کی جانب سے انٹر نیٹ اور ویب سائٹس کے ڈیٹا کے تبادلے کے معاہدے کئے ہیں ۔ اسی وجہ سے قانونی سقم کی وجہ سے پاکستانی افسران کو غیر ملکی ویب سائٹس سے ڈیٹا نہیں مل پاتا ہے ۔ اس ضمن میں جب ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل زین شیخ سے بات کی گئی تو ا ن کا کہنا تھا کہ وہ صورتحال سے آگاہ ہیں اور پوری کوشش کررہے ہیں کہ ایسے اقدامات کو جلد مکمل کیا جاسکے جس کے تحت پاکستانی حکا م کو فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس کی غیر ملکی انتظامیہ سے مطلوبہ ریکارڈ متواتر ملتا رہے ۔