عدالت میں وکلا کے نعرے-ہنگامہ کرکے مجھے دبایا نہیں جاسکتا-چیف جسٹس

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کہا ہےکہ پاکستان میں جمہوری نظام کے سوا کوئی اور نظام نہیں ہوسکتا۔عوامی مسائل پر نوٹس لینا میری ذمہ داری ہے اور انصاف کے دروازے24گھنٹے کھلے ہیں۔سب کو واضح پیغام ہے آئین کے خلاف کوئی کام قابل قبول نہیں ہے،جمہوریت آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے، استعفیٰ دے دوں گا مگر بے انصافی نہیں ہونے دوں گا،ہنگامہ کرکے مجھے دبایا نہیں جاسکتا،یہ باتیں چیف جسٹس نے لاہور میں تقریب سے خطاب اور سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہیں،لاہور میں عاصمہ جہانگیر فاونڈیشن کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں جمہوری نظام کے سوا کوئی اور نظام نہیں ہوسکتا، کسی اور نظام کی اجازت نہیں دی جاسکتی، جمہوریت، جمہوریت اور جمہوریت۔ آئین کے خلاف کوئی اقدام قابل قبول نہیں، جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ جمہوریت لازمی ہے جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے اور یہ بنیادی حقوق کی محافظ ہوتی ہے، آئین سے انحراف کا کوئی سوال نہیں، یہ بالکل واضح پیغام ہے۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا انصاف کے دروازے 24 گھنٹے کھلے ہیں، عاصمہ جہانگیر کو خراج تحسین کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر بہت باہمت خاتون تھیں، ان کی ساری زندگی جدوجہد میں گزری، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے عاصمہ جہانگیر نے بےمثال کام کیا، انہوں نے انسانی حقوق کی اہمیت کو جانا اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے لیے آواز اٹھائی، ان ہی کی وجہ سے مجھے انسانی حقوق کے معاملات پر از خود نوٹس لینے کی ترغیب ملی۔ میں نے اپنا پہلا از خود نوٹس عاصمہ جہانگیر کے کہنے پر لیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ استاد معاشرے کا سب سے مقدس کردار ہے، معاشرے میں استاد کا احترام ہونا چاہیے، نپولین نے فاتح بنتے ہی استاد کے گھر پناہ لینے والے کے لیےعام معافی کا اعلان کیا، کل پروفیسر کے ساتھ جو رویہ رہا اس پر افسوس ہوا۔ میں نے گزشتہ روز ہونے والے واقعے کا از خود نوٹس لیا ہے،قبل ازیں چیف جسٹس نے وکلا کی جانب سے سب انسپکٹر پر تشدد کیخلاف ازخود نوٹس کیس کی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سماعت کی، چیف جسٹس نے احتجاج اوردھرنے کی دھمکیوں کے باوجودسب انسپکٹرپر تشددکرنے والے وکلاء کے خلاف درج ایف آئی آرمعطل کرنے اور وکلاء کی گرفتاریوں پرحکم امتناعی دینے کی درخواست مسترد کردی،سماعت کے موقع پر وکلا تنظیموں کے رہنما اور وکلا کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔عدالت کو لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر نے بتایا کہ وکیلوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس دوران درجنوں وکیلوں نے کمرہ عدالت میں شیم شیم کے نعرے بلند کر دئیے۔چیف جسٹس نے وکلا کی جانب سے شیم شیم کے نعروں پر کہا کہ میں اس ادارے کا باپ ہوں۔ آپ سے گالیاں بھی کھانی پڑی تو کھاوٴں گا اور انصاف کروں گا، آپ کو شرم آنی چاہیے کہ عدالت میں شیم شیم کے نعرے لگے، شیم شیم کے نعرے لگانے والے آئندہ میری عدالت میں نہ آئیں، میرا سر شرم سے جھکا دیا ہے،لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے آپ کا سر شرم سے جھکے، شیم شیم کے نعرے پولیس کے لیے ہیں، وکلا کے خلاف سازش کی گئی ہے، وکلا پر دہشت گردی دفعات لگا دی گئی ہیں، یہ بات طے ہوئی تھی کہ عدالت کے اندر کی ویڈیو منظر عام پر نہیں آئے گی،صدر لاہور بار کا کہنا تھا کہ پولیس کا رویہ انتہائی خراب ہے، عدالتوں کی ویڈیو لیک نہیں ہونی چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں کی ویڈیو کیوں لیک نہیں ہونی چاہیے؟ اگر دہشت گردی دفعات ناجائز تھی تو آپ میرے پاس آتے، ہنگامہ کرکے مجھے دبایا نہیں جاسکتا، اگر کوئی مجرم پایا گیا تو رعایت نہیں برتیں گے، میں استعفی دے دوں گا لیکن انصاف کروں گا،لاہور بار کے سیکرٹری نے کہا کہ آپ وکیلوں پر لگائی گئی انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے معطل نہیں کرتے تو ہم سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگ دھرنا دیں میں باہر آ کر دیکھتا ہوں۔چیف جسٹس نے وکلا کے خلاف درج ایف آئی آر معطل کرنے اور مقدمے میں نامزد وکلا کی گرفتاریوں پر حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا بھی مسترد کر دی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ جائیں اور دھرنا دیں، آئندہ سماعت پر ویڈیو عدالت میں دکھا کر ذمے داروں کا تعین کریں گے۔

Comments (0)
Add Comment