مجاہد کامران کا نام سیکورٹی گارڈکےقتل میں بھی آگیا

لاہور (رپورٹ: نجم الحسن عارف) پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کا نام یونیورسٹی کے ایک سیکورٹی گارڈ محمد عمران کے قتل کے پس منظر میں بھی پہلی مرتبہ کھل کر سامنے آنے لگا ہے۔ یونیورسٹی کے سابق سیکورٹی آفیسر پہلے سے اس پر آن ریکارڈ ہیں کہ محمد عمران سیکورٹی گارڈ کو اس واقعے سے پہلے ایک جھوٹے بائیک چوری کے مقدمے میں پولیس کے ساتھ ملی بھگت کرکے گرفتار کرایا گیا اور بعدازاں تشدد سے اس کی ہلاکت ہوگئی۔ واقعے کے مطابق وائس چانسلر رات کے ساڑھے 12 بجے رکشے میں سوار ہو کر یونیورسٹی کے طالبات ہاسٹل میں اپنے ”مذموم عزائم“ کے ساتھ داخل ہونا چاہتے تھے۔ لیکن رات گئے طالبات کے ہاسٹل کے علاقے میں رکشوں کی آمد کی اجازت نہ ہونے پر رکشا سوار وائس چانسلر کو سیکورٹی گارڈ محمد عمران نے روکا جس پر کچھ ہی ہفتے بعد عمران کو ایک چھوٹے مقدمے میں ملوث کردیا گیا۔ بائیک چوری کے مقدمے کے مدعی سید زاہد حسین سے سیکورٹی گارڈ کا نام پولیس کے متعلقہ ایس ایچ او نے اصرار کرکے درخواست میں شامل کرایا۔ تاہم سید زاہد حسین نے جس عمران کا نام پولیس نے اصرار کے بعد دیا تھا پولیس اور یونیورسٹی انتظامیہ نے اسے گرفتار نہ کیا۔ بلکہ وائس چانسلر کے غیر اخلاقی رازوں سے آگاہ اور طالبات ہاسٹل میں بھیس بدل کر داخلے سے روکنے والے سیکورٹی گارڈ عمران کو پولیس تشدد سے ہلاک کرادیا۔ زاہد حسین نے ”امت“ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اس کی موٹر سائیکل چوری ہوئی تھی لیکن وہ گرلز ہاسٹل کے علاقے میں نہیں بلکہ شعبہ شماریات سے ہوئی تھی ،جہاں سیکورٹی گارڈ بھی کوئی اور تھا۔ جب گرلز ہاسٹل کے سیکورٹی گارڈ کو گرفتار کیا گیا تو میں نے تھانے پہنچ کر کہا کہ بے گناہ کو میری بائیک چوری کا ملزم نہ بنائیں اور نہ اس پر تشدد کریں۔ بعدازاں وہ ہلاک ہوگیا اور میرے لئے یونیورسٹی جانا مشکل ہوگیا۔ سید زاہد کے بڑے بھائی سید مجید نے اس بارے میں بتایا کہ میرا بھائی بتاتا ہے کہ جب عمران نامی سیکورٹی گارڈتشدد سے مارا گیا تو یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے مشکوک کالز آتی ہیں کہ یونیورسٹی کے پرائزیڈنگ آفیسر اور ان دنوں وائس چانسلر کے انتہائی اعتماد کے ساتھی جاوید سمیع کا نام کسی صورت اس واقعے میں نہیں لینا ہے۔ ورنہ تمہیں نقصان ہوگا۔ سید مجید کے بقول اس وقت کی صوبائی حکومت نے ضلع قصور کے دو ایم پی اے حضرات کے قریبی افراد کے ذریعے بھی پیغام بھجوایا کہ جاوید سمیع ریذیڈنگ آفیسر یا کسی اور کا نام نہ لیا جائے۔ اس صورتحال میں سید زاہد نے یونیورسٹی کی تعلیم کو خیرباد کہہ دیا کیونکہ جاوید سمیع نے شعبہ شماریات کے سربراہ کے سامنے ان کے دفتر میں بلاکر بھی دھمکایا تھا۔ واضح رہے مقتول کے بھائی محمد رمضان کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ انہیں پولیس کے اہم افسر شفیق گجر نے براہ راست کہا تھا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بھائی کے قتل کا کچھ بنے تو وائس چانسلر مجاہد کامران اور جاوید سمیع کا نام اپنی درخواست سے نکال دیں۔ لیکن مقتول عمران کے بھائی رمضان نے پولیس کے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن شفیق گجر کا یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا۔ واضح رہے کہ وائس چانسلر مجاہد کامران کے چہرے سے کمبل مقتول عمران نامی سیکورٹی گارڈ نے نہیں ہٹایا تھا اس کا افسر ارشد بٹ نے ہٹایا تھا جس کے بعد وائس چانسلر نے دونوں سیکورٹی اہلکاروں کو گالیاں دیں جبکہ ارشد بٹ نے نہ صرف خود وائس چانسلر سے معافی مانگی بلکہ عمران سے بھی کہا کہ وہ وائس چانسلر سے معافی مانگے۔ جس پر اس نے اس کی معافی مانگی۔ لیکن اس کے باوجود عمران کو مبینہ طور پر پولیس کے ذریعے قتل کرادیا گیا اور ارشد بٹ کو چند ماہ کے اندر ملازمت سے نکال دیا۔”امت“ کے ذرائع کے مطابق سابق صوبائی وزیر خواجہ عمران نذیر بھی مقتول کے خاندان کو اس کیس سے دستبردار ہونے اور صلح کرنے کیلئے کہتے رہے جبکہ ایس ایس پی کی سطح کے پولیس افسر شارق کمال اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں عمران کی موت کا سبب اس کی غلط رفتاری کو قرار دے چکے ہیں ۔ اسی طرح بعداز مرگ فرانزک رپورٹ میں بھی مقتول عمران پر ڈاکٹروں کے پینل نے ڈکلیئر کیا کہ اسے تشدد کے باعث موت ہوئی۔ خیال رہے تھانے میں تشدد کے نتیجے میں عمران کو خون کی الٹیاں آتی رہیں۔ ضمانت پر رہائی ملی کو ایک ہفتہ تک اسپتال میں داخل رہا اور جانبر نہ ہوسکا۔ ”امت“ کے ذرائع کے مطابق بعض طالبات کی خودکشیوں کا سبب کی مجاہد کامران کے ساتھی تھے۔

Comments (0)
Add Comment