سی پیک قرضوں کی تفصیل دینے پر حکومت تیار

اسلام آباد (امت نیوز/ مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی حکومت بیل آؤٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف کو سی پیک سے متعلق چینی قرضوں کی تفصیلات کی فراہمی پر تیار ہوگئی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ چین کی حکومت کو شفاف قرضوں کی تفصیلات کسی کو بھی دینے پر اعتراضات نہیں ہیں۔عالمی مالیاتی ادارہ قرضے دینے کیلئے کڑی شرائط عائد نہیں کررہا ہے، تاہم روپے کی قدر میں آئندہ چند روز کے دوران گراوٹ آسکتی ہے اور اصلاحات کے ایجنڈے سے متوسط طبقے پر بوجھ پڑے گا۔ خراب معاشی حالات کی وجہ چین اور اس کے قرضے نہیں۔چین کا سب سے بڑا مقروض ملک امریکہ ہے۔تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئی ایم ایف 18ویں آئینی ترمیم میں تبدیلی کے بغیر ایک پیسہ نہیں دے گا۔ بعض میڈیا اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کو جاری مالی سال کے اختتام پر افراط زر کی شرح 14فیصد ہونے، شرح نمو 3فیصد سے بھی کم ہونے کے خدشات سے آگاہ کردیا ہے۔تفصیلات کے مطابق انڈونیشیا کے جزیرہ بالی میں عالمی مالیاتی ادارہ و عالمی بینک کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت و آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ کو قرض کی باضابطہ درخواست دینے کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ اس موقع پر حکومت کی جانب سے صحافیوں پر کیمرے لانے کی ممانعت عائد کی گئی۔صحافیوں سے گفتگو میں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کو چین سے سی پیک قرضوں کی تفصیلات دینے میں کوئی حرج نہیں۔پاکستان کو درپیش اقتصادی مشکلات کو چینی قرضوں سے جوڑنے کا امریکی الزام درست نہیں ہے۔ یہ امریکی تاثر بالکل غلط ہے کہ پاکستان سی پیک قرضوں کے لیے آئی ایم ایف کے پاس گیا ہے۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرض سی پیک کے حوالے سے بالکل بھی خرچ نہیں ہوگا۔ چین کی حکومت بھی واضح کرچکا ہے کہ پاکستان نے قرض شفاف طریقے سے لیا۔ اسلام آباد جسے بھی چاہے قرض کی تفصیل پیش کر سکتاہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ امریکہ آئی ایم ایف میں بڑا اسٹیک ہولڈر تو ہے لیکن اسے ویٹو اختیار نہیں ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ چین کا سب سے بڑا مقروض ملک امریکہ ہی ہے۔وفاقی وزیر خزانہ نے کابینہ میں اپنے ساتھی، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے اس بیان کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض دینے کیلئے کوئی کڑی شرائط عائد نہیں کی ہیں۔ وزیر خزانہ نے یقین دہانی کرائی کہ اگر آئی ایم ایف کی شرائط پاکستان کیلئے نا قابل قبول ہوئیں تو پاکستانی حکومت پروگرام پر نظرثانی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ابھی تو عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط سامنے نہیں آئی ہیں۔ آئی ایم ایف قرض کیلئے قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ہمیں2019 میں 9ارب ڈالر قرض واپس کرنا ہے۔ اس میں چین کا قرض 30کروڑ ڈالر بھی نہیں۔ہر ماہ کرنٹ اکاؤنٹ میں 2ارب ڈالر کا خسارہ بڑھ رہا ہے۔ بڑھتی تیل قیمتیں درآمدات میں اضافے کا سبب ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر 2 ماہ کی در آمد کیلئے بھی کافی نہیں۔ نواز لیگی حکومت ختم ہونے کے وقت ملکی زرمبادلہ ذخائر 18ارب سے کم ہو 8ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔اصلاحات سے متوسط طبقے پر بوجھ پڑے گا۔ سعودی عرب سے ادھار پر تیل لینے کیلئے بات چیت جاری ہے۔ درآمدات و برآمدات کے فرق کی وجہ سے ڈالر مہنگا ہوا اور آئندہ چند دنوں میں روپے کی قدر میں مزید کمی ہو سکتی ہے۔ڈالر کی قیمت ایک روپیہ بڑھنے سے 95ارب کا ملکی قرضہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سب کے ذمہ دار وہی ہیں جنہوں نے معیشت تباہ کی۔ تجارتی خسارہ بڑھے گا تو ڈالر کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگا۔ برآمدات نہ بڑھیں تو ڈالر کی قیمت بڑھتی جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں اسد عمر نے کہا کہ میں نے کبھی بھی آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی بات نہیں کی۔ مجھے کوئی ایک کلپ ڈھونڈ کر دکھایا جائے جس میں مجھے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی بات کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ میری یہ خواہش ضرور ہے کہ پاکستان کو آخری بار آئی ایم ایف سے مالی معاونت لینا پڑے۔ بیل آؤٹ پیکیج معیشت کے لیے ناگزیر ہے، چاہے یہ آئی ایم ایف سے ملے یا چین دے۔گزشتہ حکومت کے لیے عالمی ماحول ساز گار تھا لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ نئی حکومت کے آئی ایم ایف جانے پر ردِعمل زیادہ آیا ہے۔ ایسا لگا جیسے ہم نے انوکھا کام کر لیا ہو۔ اسٹاک مارکیٹ گرنے کی وجہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان نہیں تھا۔رجوع کے سرکاری اعلان پر تو حصص بازار میں 600پوائنٹس کی تیزی آئی تھی۔ادھر امریکی ٹی وی چینل بلوم برگ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا سامنا ہے ۔6تا12 ارب ڈالر کے قرض کیلئے پاکستان کیلئے چینی قرضوں کی سخت چھان بین ہوگی۔ پلاننگ کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین ندیم الحق کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط انتہائی سخت ہوں گی جس کی قیمت قوم کو چکانی پڑے گی۔ پاکستان60 کی دہائی سے معیشت کو لاحق کینسر کے علاج کیلئے جرأت مندانہ اقدامات التوا کا شکار کرتا آیا ہے۔ متسوبشی کارپوریشن پاکستان کےسی ای او کیمی ہائیڈی اینڈو کے مطابق پاکستان کو ادارہ جاتی مسائل پر کام کی ضرورت ہے اور یہ ممکن بھی ہے۔انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس کے مطابق پاکستان 15ارب ڈالر تک قرض لینا چاہتا ہے۔اس ضمن میں سال کے آخر تک معاہدہ ہو گا۔عالمی مالیاتی ادارہ کی شرائط بجٹ خسارہ کم کرنا، شرح تبادلہ میں لچک و سخت مالیاتی پالیسی شامل ہوگی۔ معروف سفارتکار و تجزیہ کار ظفر ہلالی کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف آئین میں ترمیم کے بغیر ایک پیسہ نہیں دے گا ۔عالمی ادارے کا موقف ہے کہ پاکستان میں بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکس سے جتنا پیسہ اکٹھا ہوتا ہے وہ 5حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔فیڈریشن کو30 اور صوبوں کو 70 فیصد ملتے ہیں۔ وفاقی حکومت کے حصے کی 30 فیصد رقم پنشن، دیگر اخراجات، قرض اور انتظامی اخراجات کیلئے کافی نہیں۔ عالمی ادارہ جاننا چاہتا ہے کہ پاکستان قرض کے پیسے کیسے واپس کرے گا۔ جریدہ دی بزنس کے مطابق پاکستان کا حال ہی میں دورہ کرنے والے آئی ایم ایف وفد کی جانب سے وزارت خزانہ کے حکام کو بتایا گیا ہے کہ 30جون 2019کو ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام تک پاکستان میں افراط زر کی شرح 14فیصد تک ہوسکتی ہے اور شرح نمو 3فیصد سے بھی کم رہنے کا خدشہ ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے تخمینہ دورے کے اختتام پر جاری بیان میں ظاہر نہیں کیا گیا تاہم بیان میں یہی کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ شرح نمو کافی کم رہے گی جبکہ افراط زر میں اضافہ ہوگا ۔ادارہ شماریات کے مطابق جاری مالی کی پہلی سہ ماہی کے دوران افراط زر کی شرح 5.86 فیصد ہے ۔اسٹیٹ بینک کے مطابق افراط زر کی شرح 8فیصد رہنے کا امکان ہے۔ افراط زر بڑھنے سے وزیر اعظم عمران خان کی اعلان کردہ 50لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ متاثر ہوسکتا ہے۔ عالمی بینک اپنی ششماہی رپورٹ میں 2برس تک پاکستان میں معاشی ترقی کی رفتار کم و افراط زر زیادہ رہنے کا انتباہ جاری کر چکا ہے ۔اس دوران غربت میں کمی ،روزگار کے مواقع کے حوالے سے پیش رفت نہیں ہو گی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ معیشت میں بڑھتا ہوا عدم توازن معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کے حل کے لیے فوری طور پر مالیاتی پالیسی کو مستحکم کرنا اور ایکسچینج ریٹ میں نرمی لانا ہوگی۔ عالمی بینک کی جانب سےامپورٹ میں اضافے کی بڑی وجہ سی پیک کیلئے اشیا منگوانا قرار دیا گیا ۔بینک نے تجویز دی کہ پاکستان کو عالمی منڈیوں میں رسائی بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ کرنٹ اکاؤنٹ کی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکے۔ورلڈ بینک کے مطابق عوامی سرمایہ کاری میں وفاقی اور صوبائی سطح پر کمی اور ریونیو میں ٹیکس کی مد میں اضافہ متوقع ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment