مصنوعی پانی بحران سے لیاری والوں کو سزا دی جا رہی ہے-سید عبدالرشید

کراچی (اسٹاف رپورٹر )لیاری میں پانی کا مصنوعی بحران پیدا کرکے مکینوں کو سزا دی جا رہی ہے، واٹر بورڈ اور متعلقہ اداروں نے پانی کی غیر منصفانہ تقسیم سے مسائل میں اضافہ کیا ہے ۔آر او پلانٹس سے پانی کی سپلائی جان بوجھ کر بند کرائی گئی ہے، معاملہ وزیر اعلیٰ کے سامنے اٹھاوں گا، پانی کی تقسیم اور اس پر اخراجات کا آڈٹ ہونا چاہیئے، مسئلہ حل نہ ہوا تو مکینوں کیساتھ ملکر بھرپور احتجاج کروں گا۔ ان خیالات کا اظہار رکن سندھ اسمبلی سید عبدالرشید نے لیاری میں واٹر پلانٹ اور سپلائی لائنوں کے دورے پر کیا۔ انہوں نے کہا کہ لیاری میں پانی کا مصنوعی بحران پیدا کیا جارہا ہے جس کی ذمہ داری واٹر بورڈ انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے، کے تھری کی لائنوں سے پانی چوری کرکے انڈسٹریل ایریا کو سپلائی کیا جارہا ہے، لیاری کے سیاسی یتیم بھی پانی بحران کے ذمہ دار ہیں، جنہوں نے بلک لائنیں پنکچر کرکے سپلائی کو متاثر کیا ہے، کسی کو غیر قانونی کام کرنے نہیں دیں گے، لیاری والوں نے مجھے ووٹ دیا ہے، انہیں ہر صورت ریلیف فراہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ لیاری میں پانی چوری کی روک تھام کیلئے اداروں سے بات کریں گے۔ رکن اسمبلی نے کہا کہ لیاری میں نصب آر او پلانٹ جان بوجھ کر بند کروائے گئے ہیں، جن سے پانی کی وافر مقدار مکینوں کو فراہم کی جاتی تھی، ہر پلانٹ کی ایک الگ کہانی سامنے آرہی ہے، معلوم ہوا ہے کہ آر او پلانٹس پر تعینات ملازمین کو 22ہزار کی جگہ 5سے 8ہزار روپے ماہوار ادا کیئے جاتے رہے، اب انہیں بھی چند ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی، مذکورہ پلانٹس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں، کسی کو انہیں تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔دورے کے موقع پر رکن اسمبلی نے پلانٹس میں خرابیوں کی تفصیلات معلوم کیں اور انہیں دور کرنے کے احکامات دیئے۔ مولا مدد پر واقع آر او پلانٹ پر موجود عملے نے رکن اسمبلی کو بتا یا کہ 3 ماہ سے نہ تو ڈی ایم سی کا کوئی فرد پلانٹ پر آیا ہے، نہ ہی واٹر بورڈ عملہ یہاں کا رخ کرتا ہے ۔رکن اسمبلی نے کہا کہ اب میں خود پلانٹ کا وزٹ کروں گا اور اسے فعال بھی کراؤں گا ۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ معاملے پر وزیر اعلیٰ سندھ سے بھی بات کریں گے اور پانی ترسیل کے اخراجات کا آڈٹ بھی کرائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ متعلقہ اداروں نے پانی کا مسئلہ حل نہ کیا تو لیاری کے مکینوں کے ساتھ ملکر احتجاج کا راستہ اپناؤں گا۔

Comments (0)
Add Comment