29 کروڑ بجٹ والا کورنگی اسپتال بھی سہولیات دینے میں ناکام

کراچی (رپورٹ : صفدر بٹ) 2 کروڑ بجٹ کا حامل سندھ گورنمنٹ اسپتال کورنگی مریضوں کو طبی سہولیات دینےمیں ناکام ہو گیا ہے، اسپتال میں 300 مریضوں کو بیک وقت داخل کرنے کی سہولت موجود ہے، جبکہ یہاں شعبہ حادثات، ای این ٹی وارڈ ، ہڈی جوڑ، آنکھوں کا علاج، جنرل سرجری، جنرل میڈیسن ، امراض قلب ، گائنی وارڈ اور پیڈز وارڈ کے شعبوں سمیت ہیپا ٹائیٹس کے مریضوں کیلئے سینٹر بھی قائم ہے ۔ 40 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل لانڈھی، کورنگی،قائد آباد، اسٹیل ٹاؤن، شاہ فیصل کالونی اور گرین ٹاؤن سمیت دیگر علاقوں کی عوام کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے 300 بستروں پر مشتمل اسپتال میں 150 ڈاکٹرز اور 250 سے زائد پیرا میڈیکل اسٹاف کام کررہا ہے، جن پر 29 کروڑ روپے سے زائد کا بجٹ استعمال ہو رہا ہے۔ اسپتال کی او پی ڈی میں روزانہ ڈھائی ہزار سے زائد مریض آتے ہیں جبکہ ایمرجنسی میں یومیہ رپورٹ ہونے والے مریضوں کی تعداد 500 ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 2 سال قبل تک اس اسپتال میں تمام آپریشن تھیٹرز فعال تھے مریضوں کی کان ناک گلے، آنکھوں اور زچہ بچہ کے آپریشن کئے جاتے تھے لیکن محکمہ صحت کی عدم توجہی کے باعث اسپتال زبوں حالی کا شکار ہوگیا ہے اور اسپتال اب او پی ڈی اور گائنی اسپتال میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے، اسپتال آنیوالےمریضوں میں اکثریت نارمل ڈیلیوری کی ہوتی ہے، پیچیدگی یا آپریشن کی صورت میں انہیں دیگراسپتالوں میں بھیجا جاتا ہے۔اسی طرح مختلف شعبہ جات کی او پی ڈیز میں مریضوں کا طبی معائنہ ہی کیا جاتا ہے اور انہیں دوائیں اور ٹیسٹ لکھ کر بھیج دیا جاتا ہے۔ او پی ڈی کے مریضوں کو برائے نام دوائیں ہی ملتی ہیں اور اکثر ڈاکٹر کمیشن کیلئے من پسند کمپنیوں کو مہنگی دوائیں لکھ کر دیتے ہیں، جس پر مریضوں کو اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ اسپتال کی مایوس کن کارکردگی سے متعلق عملے کا کہنا ہے کہ 3 بار لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، جبکہ جنریٹر خراب ہونے پرآپریشن نہیں ہو رہے، جس کی وجہ سےمریض نجی اسپتالوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسپتال کی ایمر جنسی میں مردوں اور خواتین کیلئے صرف 3،3 بیڈ مختص ہیں، جبکہ ادویات و مرہم پٹی کا سامان بھی بازار سے منگوایا جاتا ہے، اسکے علاوہ بیشتر مریضوں کو جناح اسپتال جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شعبہ امراض قلب میں ماہرین تو موجود ہیں، جو ماہانہ لاکھوں تنخواہ وصول کر رہے ہیں، لیکن یہاں مریضوں کو داخل نہیں کیا جاتا اور او پی ڈی و شعبہ ایمرجنسی میں چیک کیا جاتا ہے اور ہارٹ اٹیک کی صورت میں مریضوں کو این آئی سی وی ڈی ریفر کر دیا جاتا ہے۔ اسپتال میں یومیہ تین ہزار سے زائد مریض رپورٹ ہونے کے باوجود مریضوں کو داخل کرنے کی شرح انتہائی مایوس کن ہے اور محض 8 سے 10 مریض ہی داخل ہوتے ہیں، ان میں سے بھی متعدد کو چند گھنٹے کی طبی امداد کے بعد ہی ڈسچارج کر دیا جاتا ہے۔ مریضوں اور ان کے لواحقین کا کہنا ہے کہ اسپتال میں صرف سفارشی مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے، دیگر کو ٹیسٹوں کے نام پر اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ وہ تنگ آکر دوسرے اسپتال کا رخ کرلیتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپتال میں کسی بھی ممکنہ ایمرجنسی اور آپریشن کے بعد انتہائی تشویشناک حالت میں مریضوں کیلئے 2014 میں شعبہ آئی سی یو فعال کیا گیا اور اس میں 4 وینٹی لیٹر بھی موجود ہیں، لیکن 2015 میں نااہل انتظامیہ نے اسے بند کر دیاگیا اور اب آئی سی یو کی سہولت موجود نہیں ہے اور لاکھوں روپے مالیت کے طبی آلات بغیر استعمال کے پڑے پڑے ناکارہ ہو رہے ہیں ۔ اسپتال کی لیبارٹری میں چند ایک ٹیسٹوں کی سہولت موجود ہے جبکہ اہم اور بیشتر ضروری ٹیسٹ باہر لیبارٹریوں سے کرائے جاتے ہیں۔ اسپتال کی ابتر صورتحال پر موقف جاننے کیلئے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مرتضیٰ علی شاہ سے متعدد بار کوشش کے باوجود رابطہ نہ ہو سکا۔

Comments (0)
Add Comment