کراچی( اسٹاف رپورٹر ) متحدہ لندن منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات میں ایم سی بی بینک رکاوٹ بن گیا، ایم کیو ایم کی ذیلی تنظیم خدمت خلق فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹ کا اصل ریکارڈ فراہم کرنے کے لئے متعدد خطوط ارسال کرنے کے باوجود ایم سی بی بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مطلوبہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ جس سے منی لانڈرنگ کا یہ اہم کیس اور خدمت خلق فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹس سے 1ارب 31کروڑ روپے سے زائد کی ٹرانزیکشنز ثابت کرنے میں تحقیقاتی ٹیم کو مشکلات کا سامنا ہے جبکہ تحقیقات کے دیگر حصے مکمل ہو چکے ہیں اور جلد ہی متحدہ کے کئی رہنماؤں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ایف آئی اے ذرائع کے بقول اس کیس میں وفاقی حکومت کی معاونت سےبھاری فیس پر لندن میں عالمی سطح کے شہرت یافتہ وکیل ٹوبی کڈمین کی خدمات حاصل کررکھی ہیں جنہوں نے ایف آئی اے حکام کو فوری طور پر چند اہم ثبوت جمع کرکے کیس فائل کا حصہ بنانے کو کہا ہے ،جس میں ایم سی بی بینک کا اصل ریکارڈ بھی شامل ہے،ذرائع کے بقول خدمت خلق فاؤنڈیشن کے ایم سی بی بنک واٹر پمپ برانچ کراچی کے اکاؤنٹ نمبر1000816سے ہونے والی رقوم کی منتقلی کے حوالے سے ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیررازم ونگ کے افسران پہلے ہی ایم سی بی بنک کے نائب صدر زاہد انور بیگ سے تفصیلی پوچھ گچھ کرچکے ہیں ،جس کو کیس فائل کا حصہ بناکر شواہد کے طور پر برطانوی حکام کو فراہم کیا جاچکا ہے۔ دوسری جانب ایف آئی اے نے کراچی سے لندن منی لانڈرنگ میں استعمال ہونے والے خدمت خلق فاؤنڈیشن کے بینک اکاؤنٹ میں جمع ہونے والی رقوم کا اصل ریکارڈ بینک سے غائب ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے ،تحقیقاتی ٹیم سے منسلک ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کے پاس خدمت خلق فاؤنڈیشن کے ایم سی بی بنک کے اکاؤنٹس میں رقوم کی ترسیل کے ریکارڈ کی فوٹو کاپیاں موجود ہیں ،تاہم کیس کی پیروی میں عدالت میں اصل بینکنگ ریکارڈ کا پیش کیا جانا اشد ضروری ہے،تاہم ایم سی بی بنک کی انتظامیہ کو اس کیس کی اہمیت اور حساسیت کا بالکل اندازہ نہیں ہے اور اس کا رویہ لاپروائی پر مشتمل ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے متعدد لیٹرز کے بعد یہ جواب دیا گیا کہ اصل ریکارڈ زونل آفس کراچی میں موجود ہے ،جہاں درجنوں برانچوں کے ہزاروں اکاؤنٹس کے اصل دستاویزی ریکارڈ پر مشتمل فائلیں بوریوں میں رکھی گئی ہیں ،تاہم اب تک خدمت خلق فاؤنڈیشن کے بینک اکاؤنٹ میں رقم کی ترسیل کے لئے جمع ہونے والے ”اوریجنل واؤچرز“ بینک انتظامیہ نے ایف آئی اے کو فراہم نہیں کئے ،ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے اصرار کرنے پر ایم سی بی بنک کے متعلقہ افسران نے کہا ہے کہ ریکارڈ نہیں مل رہا ہے تاہم یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ ریکارڈ مبینہ طور پر غائب کردیا گیا ہے کیونکہ خدمت خلق فاؤنڈیشن کے بینک اکاؤنٹس کی فائلیں تو موجود ہیں تاہم ان میں اصل واؤچرز موجود نہیں ہیں ،جس سے تاثر مل رہا ہے کہ انہیں جان بوجھ کر غائب کردیا گیا ہے ،ایف آئی اے ذرائع کے مطابق اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ متعدد نوٹس ارسال کرنے کے بعد بینک کے خلاف حتمی کارروائی کے لئے عدالت سے رجوع کیا جائے اور اجازت ملنے پر ایم سی بی بنک کے متعلقہ ریکارڈ روم پر چھاپہ مار کر ریکارڈ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ،تاہم اس کے لئے اعلیٰ حکام سے منظوری لی جائے گی، واضح رہے کہ اکتوبر 2017میں پاکستانی نژاد برطانوی تاجر سرفراز مرچنٹ کی تفصیلی درخواست پر متحدہ قائد الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا ،جس میں ڈپٹی ارشدووہرا ،سابق وفاقی وزیر بابر غوری ،سابق وفاقی رکن اسمبلی خواجہ سہیل منصور اور ان کے بھائی خواجہ ریحان کے علاوہ سینٹر احمد علی کو نامز د کیا گیا تھا ۔ان پر الزام تھا کہ خدمت خلق فاؤنڈیشن میں فطرہ ،زکواة ،خیرات اور کھالوں سے جمع ہونے والی رقم ان کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل ہونے کے بعد بیرون ملک ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے کاؤنٹس میں منتقل کردی جاتی تھی ،بعد ازاں اس مقدمے میں متحدہ لندن کے رہنماؤں طارق میر اور محمد انور کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔یہ مقدمہ ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی میں درج کیا گیا تھا ،جس کے تفتیشی افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد علی ابڑو تھے اس دوران خدمت خلق فاؤنڈیشن کا تمام ریکارڈ ضبط کرلیا گیا تھا ،جس سے معلوم ہوا تھا کہ خدمت خلق فاؤنڈیشن سے کٹنے والی رسید بکس کے ذریعے 2013سے 2015تک ایک ارب 31کروڑ روپے سے زائدکے فنڈز جمع کئے گئے تھے ۔یہ فنڈز خدمت خلق فاؤنڈیشن کے ایم سی بی بینک وٹر پمپ برانچ کراچی کے اکاؤنٹ نمبر1000816 اور دو دیگر بنکوں کے اکاؤنٹس سے خواجہ سہیل منصور،ارشد ووہرا،خواجہ ریحان ،احمد علی اور بابر غوری کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوئے ،جہاں سے یہ رقم لندن میں قائم اطاف حسین اور ایم کیو ایم کے دیگر رہنماؤں کے نام پر قائم کمپنیوں میں منتقل ہوتے رہے ،جبکہ خواجہ سہیل منصور کے بھائی خواجہ ریحان نے کراچی کے بینک سے 50لاکھ روپے ٹرانزیکشن کی اہلیت رکھنے والا اے ٹی ایم کارڈ حاصل کیا جسے لندن میں الطاف حسین استعمال کرتے رہے جبکہ اس کے مساوی رقم انہیں کے کے ایف کے فنڈز سے ملتی رہی تھی۔ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیررازم ونگ ذرائع کے بقول منی لانڈرنگ کے مقدمے کو تحقیقات کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک حصے میں وہ لوگ ہیں جن کی جانب سے خدمت خلق کے بینک اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے کے فنڈز جمع کروائے گئے جبکہ دوسرے حصے میں ان افراد کو شامل کیا گیا ہے جن کے بینک اکاؤنٹس میں خدمت خلق کے اکاؤنٹس سے رقم ٹرانسفر ہونے کے بعد بیرون ملک بھجوائی گئی ایف آئی اے ذرائع کے بقول اب تک ایم کیو ایم کے 47 رہنماؤں اور عہدیداروں کے بیانات قلمبند کئے جا چکے ہیں جنہیں خدمت خلق فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے جمع کروانے کے حوالے سے تحقیقا ت کے لئے ایف آئی اے کی جانب سے نوٹس بھیجے گئے تھے تاہم ایسے 63رہنما اور عہدیدار جن میں سیکٹر اور یونٹ سطح کے کارکن بھی شامل تھے اب تک نوٹس ملنے کے باجود تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے ہیں۔