اسلام آباد (رپورٹ:اخترصدیقی) سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت میں ایک بار پھرججزمیں تبدیلی کی جائیگی اور اگلی سماعت پر جسٹس یاورعلی کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے کسی نئے جج کوشامل کیے جانے کاامکان ہے ۔جج کی تبدیلی کامعاملہ چوتھی مرتبہ سامنے آیاہے ۔خصوصی عدالت کے دوججزسپریم کورٹ کاجج بننے اور ایک جج نے سابق چیف جسٹس کے وکیل ہونے کی وجہ سے کیس کی سماعت سے معذرت کی تھی ۔دوسری جانب سابق صدرپرویزمشرف کی خصوصی عدالت میں پیشی کے دوران سیکیورٹی کی فراہمی حکومت کے لیے مسئلہ بن گئی ،عدالت کی باربار طلبی ،سپریم کورٹ کی جانب سے یقین دہانی بھی پرویزمشرف نے قبول نہیں کی اور بدستورپیش ہونے سے پس وپیش ،پرانی میڈیکل رپورٹ عدالت میں بھجوادی اور دوسری جانب وڈیولنک کے ذریعے بیان ریکارڈکرنے سے انکارکردیاہے ۔خصوصی عدالت نے بیان ریکارڈکرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کافیصلہ کرتے ہوئے فریقین سے اس پر جواب طلب کیاہے ۔کمیشن کادائرہ کار اور دیگرمعاملات بارے فیصلہ اگلی سماعت پر کیے جانے کاامکان ہے ۔عدالت نے پرویزمشرف سنگین غداری کیس کی سماعت 14 نومبرتک ملتوی کردی۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس یاورعلی کی سربراہی میں بنچ نے سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی،مشرف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ نہیں کرانا چاہتے بلکہ خود پیش ہو کر اپنا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس یاور علی نے مشرف غداری کیس کی سماعت کافیصلہ پڑھ کرسناتے ہوئے کہا کہ سابق صدر کے بیان ریکارڈ کرانے کے معاملے پرجوڈیشل کمیشن بنانے کافیصلہ کیا ہے،جوڈیشل کمیشن کے ارکان اوردائرہ کارکافیصلہ بعدمیں ہوگا۔عدالت نے کہا ہے کہ بتایاگیاہے پرویز مشرف علالت کے باعث پیش نہیں ہوسکتے،پرویزمشرف کیس میں اپنا بیان ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں،مشرف کی علالت کے باعث بیان کیلئے کمیشن کے قیام کافیصلہ کیا،سابق صدر کے وکیل نے کہا کہ دل کے عارضے کا معاملہ مسلسل میرے موکل کے ساتھ ہے۔ پرویز مشرف کا اکتوبر میں ایک ڈاکٹر طبی جائزہ لے گا لہٰذا عدالت سے درخواست ہے کہ وہ ہمیں آئندہ طبی معائنے تک کا وقت دے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر عدالت چاہتی ہے کہ نیا طبی سرٹیفکیٹ پیش کروں تو وقت دیا جائے۔جسٹس یاور علی نے سوال کیا کہ کیا پرویز مشرف کے 342 کے بیان کے بغیر عدالت فیصلہ کر سکتی ہے؟ کیا ان کا ریکارڈ کیے بغیر کیس چلایا جا سکتا ہے؟ استغاثہ بتائیں کیا پرویز مشرف کا بیان ویڈیو لنک پر ریکارڈ ہو سکتا ہے۔وکیل استغاثہ نے کہا کہ پرویز مشرف کا ماضی کا ریکارڈ سامنے ہے، وہ ویڈیو لنک پر آنے کو تیار نہیں۔خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیا۔مشرف غداری کیس کی ا سماعت کا فیصلہ جسٹس یاور علی نے پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا کہ پرویز مشرف سنگین غداری کیس میں اپنا بیان ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں لیکن بتایا گیا ہے کہ وہ علالت کے باعث پیش نہیں ہو سکتے۔جسٹس یاور علی کا کہنا تھا کہ مشرف کی علالت کے باعث بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کمیشن کے قیام کا فیصلہ کیا، جس کے اراکین اور دائرہ کار کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا جبکہ اگر کسی کو اعتراض ہو تو جوڈیشل کمیشن کا قیام ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔عدالت نے کیس کی سماعت14 نومبر تک ملتوی کردی۔پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شروع کیا تھا اور یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ کسی فوجی آمر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے، تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔رواں سال 8 مارچ سے خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کیں، تاہم 29 مارچ کو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس یحیٰی آفریدی کی معذرت کے بعد سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا۔دوسری جانب ذرائع نے روزنامہ امت کوبتایاہے کہ خصوصی عدالت کے ججزمیں ایک با رپھرتبدیلی کیے جانے کاامکان ہے کیونکہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمدیاور علی رواں ماہ کی 22تاریخ کواپنی مدت ملازمت مکمل کرتے ہوئے ریٹائر ہوجائیں گے ۔ان کے بعد جسٹس عبادالرحمان لودھی27 دسمبر، جسٹس علی اکبر قریشی 28 دسمبر اور جسٹس محمد انوارالحق 31 دسمبر2018کو ریٹائر ہوں گے۔جج سپیشل کورٹ سنٹرل ملتان محمد اشرف 31 اکتوبر 2018ء میں ریٹائر ہوجائیں گے۔جسٹس یاور علی کی ریٹائرمنٹ کے بعد لاہورہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس انوار الحق 23اکتوبر کو چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ کے عہدہ کا حلف اٹھائیں گے۔امکان ہے کہ انھیں خصوصی عدالت میں تعینات کیاجائیگامگروہ بھی زیادہ عرصہ عدالت کاحصہ نہیں بن پائیں گے اورجسٹس انوار الحق صرف 2ماہ نو دن کے لیے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے عہدہ پر فائز رہیں گے اور مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد جسٹس انوار الحق 31دسمبر2018کو ریٹائر ہوجائیں گے۔سینئر قانون دان اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے روزنامہ امت سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ ججزکوایک قانو ن کے مطابق طے شدہ مدت میں ملازمت مکمل کرتے ہوئے ریٹائرہوناہوتاہے اور اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں پرویزمشرف کوکوئی ریلیف مل رہاہے ۔ایک جج جائیگاتواس کی جگہ دوسراجج آجائیگااور سماعت جاری رہے گی ۔امکان یہی ہے کہ جسٹس یاور علی کی ریٹائرمنٹ کے بعدلاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس کوہی اس بنچ کاحصہ بنایاجائیگایہ بھی ممکن ہے کہ کے پی کے ہائی کورٹ سے کوئی جج لیاجائے بہرحال ابھی توسماعت میں ایک ماہ کاوقت باقی ہے اور بائیس اکتوبرکے بعدہی کوئی فیصلہ سامنے آسکتاہے ۔اس کافیصلہ چیف جسٹس پاکستان نے کرناہے کہ وہ کس جج کواس بنچ کاحصہ بناتے ہیں ۔واضح رہے کہ اس خصوصی عدالت کاجسٹس فیصل عرب ،جسٹس یحیٰ آفریدی اور دیگرججزخصہ رہے ہیں ۔