منی لانڈرنگ کیس میں شواہد ضائع ہونے کا خدشہ

کراچی(رپورٹ:عمران خان/اسٹاف رپورٹر ) منی لانڈرنگ کیس میں شواہد ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔29سے زائد جعلی اکائونٹ سامنے آنے کے باوجود معاملہ تفتیش تک محدود ہے ،جبکہ مقدمات میں غیرضروری تاخیر کی جانے لگی۔ متعلقہ بینکوں کے ذمہ دار عملے کیخلاف بھی کارروائی نہ کی جاسکی۔چیئر مین سمٹ بینک عبداللہ لوتھا سمیت5اہم ملزم بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ کیس میں آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور ضمانت پر ہیں ،جبکہ مردہ شخص کے نام پر بھی ساڑھے 4ارب کی ٹرانزیکشن پکڑی گئی۔سمٹ اور سندھ بینک سمیت 3 بینکوں میں 4 اکاؤنٹس کھولے گئے-اقبال کا انتقال 2014 میں ہوا۔ اسےجے آئی ٹی نے نوٹس بھیجا تھا۔ ذرائع کے مطابق 29مشکوک اکاؤنٹس سے ہونے والی 35ارب روپے منی لاندرنگ کیس کی تحقیقات میں جے آئی ٹی ممبران کے ماتحت کام کرنے والے ایف آئی اے کے 6تفتیشی افسران اپنے اپنے حصے میں آنے والے اکاؤنٹس پر نہ صرف تفتیش مکمل کرچکے ہیں ،بلکہ ان 29اکاؤنٹس سے نکلنے والے مزید 48بے نامی اکاؤنٹس کا منی ٹریل بھی حاصل کرلیا گیا ہے۔ذرائع کے بقول اب تک منی لانڈرنگ کیس میں صرف ایک بینک اکاؤنٹ سے ہونے والی ٹرانزیکشن کے ریکارڈ پر مقدمہ درج کیا گیا ہے ،جس میں سابق صدر آٓصف علی زرداری ،فریال تالپور اور انور مجید سمیت 23افراد کو نامزد کیا گیا ،تاہم 29میں سے 28بینک اکاؤنٹس پرتحقیقات کرنے والے تفتیشی افسران مزید 28مقدمات کے اندراج کے انتظار میں ہیں ،جس کے لئے انہیں جے آئی ٹی سربراہ اور ممبران کی منظوری چاہئے ،تاہم جے آئی ٹی سربراہ اور ممبران منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں اکاؤنٹ ہولڈرز کو نوٹس ارسال کرکے ان کے بیانات قلمبند کرنے میں مصروف ہیں ،جبکہ مرکزی ملزمان کو وقت ملنے سے کیس متاثر ہو رہا ہے ،اس منی لانڈرنگ کے پہلے مقدمہ میں نامز دافراد ضمانتیں حاصل کرچکے ہیں ،جبکہ بعض جیل میں ہیں۔ ذرائع کے بقول جعلی اکاؤنٹس کیس کے23 ملزمان میں سے 5 کے بیرون ملک فرار ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے کہا ہے کہ پانچوں ملزمان ایف آئی اے میں مقدمے کا اندراج ہوتے ہی بیرون ملک بھاگ گئے۔جے آئی ٹی کا کہنا ہےکہ اربوں روپے کی ٹرانزیکشن والے جعلی اکاؤنٹس کھلوانے میں ان ہی 5 ملزمان کا کردار ہے،جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق ملزمان ناصر عبداللہ لوتھا، اسلم مسعود، محمد عارف خان، محمد عمیر اور اعظم وزیر خان بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان کو وطن واپس لانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں ،اگر یہ لوگ واپس نہیں آئے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی،منی لانڈرنگ کی تحقیقات سے جڑے ایک تفتیشی افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ منی لانڈرنگ کے میگا اسکینڈل میں ایف آئی اے کی ابتدائی تحقیقا ت 29مشکوک بینک اکاؤنٹس سے ہونے والی منی لانڈرنگ پر مکمل ہوچکی ہیں ،تاہم جے آئی ٹی کی منظوری کا انتظار کیا جا رہا ہے ،جس کو سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں تفتیشی افسران کو منظوری کے احکامات دینے کا اختیار حاصل ہے۔ پہلا مقدمہ اس لئے درج کرلیا گیا تھا کہ اس وقت جے آئی ٹی کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا اور تفتیشی افسر نے معمول کے مطابق ڈائریکٹر کے ذریعے ڈی جی سے منظوری لے کر مقدمہ درج کرلیا تھا ،تفتیشی افسر کے بقول رواں برس 6جولائی کو ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل میں منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج ہونے کے بعد سے ایف آئی اے کے6تفتیشی افسران میں سے ہر تفتیشی افسر کو 5بینک اکاؤنٹس کی چھان بین کے ذمے داری سونپی گئی تھی، اس وقت یہی فیصلہ ہوا تھا کہ چونکہ ہر اکاؤنٹ کی تحقیقات مکمل ہو رہی ہے ،اس لئے جیسے جیسے تحقیقات مکمل ہوتی جائے گی ،اس پر مقدمات درج ہوتے جائیں گے ۔ان مقدمات میں ملزمان کی تعداد اور نام زیادہ تروہی رہیں گے ،جو پہلے مقدمہ میں تھے،اس وقت 6تفتیشی افسران میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد علی ابڑو،انسپکٹر سراج پنہور،انسپکٹر محمد اقبال ،انسپکٹر منصور مومن ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر خالد انیس اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر جمیل میو شامل ہیں ،ہر تفتیشی افسر کو 3سے 4ماتحت افسرا ن اور اہلکار وں کی معاونت حاصل ہے۔ذرائع کے مطابق تمام تفتیشی افسران ابتدائی 29مشکوک بینک اکاؤنٹس پر تحقیقات مکمل کرچکے ہیں ،جن میں سے کئی اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے دوران مزید اکاؤنٹ سامنے آئے۔ ذرائع کے بقول 5 بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات کرنے والے ایک تفتیشی افسر کو 15نئے بینک اکاؤنٹس کا سراغ ملا ،جبکہ دیگر تفتیشی افسران نے بھی 2سے 3نئے اکاؤنٹس کا سراغ لگا چکے ہیں،جس کے بعد مجموعی طور پر منی لانڈرنگ کے اس کیس میں اب تک 77مشکوک اکاؤنٹ سامنے آچکے ہیں اور ان مشکوک بینک اکاؤنٹس میں رقوم منتقل کرنے اور نکلوانے والی 47کمپنیوں اور 334افراد کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ اسی وقت شروع ہوسکتا ہے ،جب ان پر مقدمات درج ہونا شروع ہونگے ۔ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کے تفتیشی افسران روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی پیش رفت سے سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل پانے والی جے آئی ٹی ممبران ڈائریکٹر ایف آئی اے احسن صادق، ایف بی آر کے ریجنل ٹیکس آفس کے کمشنر آئی آرعمران لطیف، اسٹیٹ بینک کے جوائنٹ ڈائریکٹر بی آئی ڈی ون ماجد حسین کے علاوہ نیب کے ڈائریکٹر نعمان اسلم، سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر محمد افضل اور آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر شاہد پرویز کو رپورٹ پیش کررہے ہیں ،تاہم نئے مقدمات کے اندراج کی منظوری اب تک نہیں دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی سربراہ اور ممبران مزید مقدمات کے اندراج میں غیر ضروری تاخیر کرنے لگے ہیں ،جس سے ملزمان کو فائدہ پہنچنے اور کیس کی طوالت کے باعث شواہد ضائع ہونے کا بھی اندیشہ ہے ،منی لانڈرنگ کیس میں استعمال ہونے والے بینک اکاؤنٹس کو غیر قانونی طور پر بینک افسران کی ملی بھگت سے کھلوانے والے اومنی گروپ کے مرکزی کردار وں سمیت 5اہم ملزمان اس وقت بیرون ملک ہیں ۔یہ ملزمان منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہونے کے بعد بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوئے ،جس کی وجہ سے اس کیس کو اسٹیبلش کرنے میں تکنیکی رکاوٹ موجود رہے گی ،ملزمان کو بیرون ملک جانے کا موقع اور وقت فراہم کرنے کے حوالے سے بھی چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں ،کیونکہ گرفتار ہونے والے اومنی گروپ کے مالکان اور بینک کے صدر حسین لوائی از خود بینک اکاؤنٹ کھلوانے نہیں گئے تھے ۔یہ اکاؤنٹس سمٹ بینک کے چیئر مین عبداللہ لوتھا،اومنی گروپ کے اکاؤنٹس کے شعبہ کے افسران اسلم مسعو اور محمد عارف خان نے سمٹ بینک کے ماتحت افسران محمد عمیر اور اعظم وزیر خان کے ساتھ مل کر کھولے تھے ،جس کے لئے ان چاروں افراد نے عملی طور پر کام کیا تھا اور منی لانڈرنگ کے اس کیس کو جعلی اکاؤنٹس کے ساتھ ثابت کرنے کے لئے ان چاروں کی گرفتاریاں اور ان کے بیانات انور مجید اور حسین لوائی سے بھی زیادہ ضروری ہیں ۔ دریں اثنا مردہ شخص کے نام پر بھی 4 بینک اکاؤنٹس میں ساڑھے 4 ارب روپ کی ٹرانزیکشن پکڑی گئی۔شادمان ٹاؤن کا رہائشی محمد اقبال آرائیں 9 مئی 2014 کو کراچی شہید ملت روڈ پر واقع ایک اسپتال میں انتقال کرگیا تھا، اور اس کی تدفین سخی حسن قبرستان میں ہوئی تھی۔ اقبال آرائیں کی موت کے بعد اس کے نام سے سمٹ اور سندھ بینک سمیت 3 بینکوں میں 4 اکاؤنٹس کھولے گئےاوران بینک اکاؤنٹس کےذریعے 4 ارب 60 کروڑ کی ٹرانزیکشنز ہوئیں۔سپریم کورٹ کی ہدایت پر قائم جے آئی ٹی نے منی لانڈرنگ میں استعمال ہونے والے بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگانے کے لئے مرحوم کو طلبی نوٹس بھیجا تو انکشاف ہوا کہ اقبال آرائیں کو فوت ہوئے تقریباً ساڑھے 4 سال ہوگئے ہیں اور تمام بینک اکاؤنٹس اس کے مرنے کے بعد ہی کھلے اور اربوں روپے کا لین دین ہوا۔ دوسری جانب مرحوم اقبال آرائیں کے بھائی اعجاز آرائیں نے اس حوالے سےبتایا کہ میرا بھائی پڑھا لکھا نہیں تھا اور مزدوری کرتا تھا، بینک اکاؤنٹ سے متعلق پولیس کو تمام کاغذات دکھائے ہیں اور نیب نے کل نوٹس بھیجا تھا جس کے بعد والد نیب کے دفتر گئے۔ ایف آئی اے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کررہی ہے اور اس سلسلے میں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں، جب کہ تحقیقات میں تیزی کے بعد سے اب تک کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آچکے ہیں ،جن میں فالودے والے اور رکشے والے کے اکاؤنٹس سے بھی کروڑوں روپے نکلے ہیں۔ملک میں بڑے بزنس گروپ ٹیکس بچانے کے لیے ایسے اکاؤنٹس کھولتے ہیں، جنہیں ‘ٹریڈ اکاؤنٹس’ کہاجاتا ہے۔اس طرح کے اکاؤنٹس صرف پاکستان میں ہی کھولے جاتے ہیں اور دنیا کے دیگر حصوں میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔

Comments (0)
Add Comment