حزب اسلامی کی جیت روکنے کے لئے کئی طاقتیں سرگرم

پشاور ؍ کابل(رپورٹ:محمد قاسم ؍ امت نیوز)افغانستان میں 3برس کی تاخیر سے ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں حزب اسلامی کی جیت کا راستہ روکنے کیلئے کئی عالمی طاقتیں سرگرم ہو گئی ہیں۔مختلف ممالک نے کابل میں واقع اپنےسفارت خانوں کے ذریعے نہ حزب اسلامی کے مخالفین کی بڑے پیمانے پر فنڈنگ شروع کر دی ہے بلکہ مختلف قبائل کے سرداروں سے بھی رابطے شروع کر دیے گئے ۔حزب اسلامی نے بھی مختلف ممالک کی جانب سے اپنے مخالفین کو امداد دیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود ان کے خلاف جاری کوششیں ناکامی سے دوچار ہو جائیں گی ۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ شمالی اتحاد کی سرافغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن نے انکشاف کیا ہے کہ حزب اسلامی نے اسے اپنے 2لاکھ کارکنوں کے نام کی فہرست جمع کرا دی ہے ۔یہ تعداد افغانستان میں کسی بھی جماعت کے کارکنوں کی تعداد سے زیادہ ہے ۔افغان الیکشن کا کہنا ہے کہ 3برس کی تاخیر سے ہفتہ 20 اکتوبر کو ہونے والے الیکشن میں کسی بھی ووٹر کو بھی بائیو میٹرک کارڈ کے بغیر ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہو گی ۔پارلیمانی انتخابات نزدیک آتے ہی افغانستان میں طالبان کے حملوں میں تیزی آ گئی ہے ۔بدھ کوہلمند کے صدرمقام لشکر گاہ میں انتخابی مہم کے دوران سابق کمیونسٹ رہنما جنرل عبدالجبار قہرمان اور اس کے 4ساتھیوں کو دھماکے سے اڑا دیا گیا ہے ۔ طالبان نے واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ۔اشرف غنی حکومت کی جانب سے مدد مانگے جانے پر امریکا نے پارلیمانی انتخابات کے موقع پر افغانستان بھر میں 200ڈرونز نگرانی کیلئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔20 اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں417خواتین کی ریکارڈ تعداد بھی پہلی بار انتخابی میدان میں اتری ہے،ماضی میں خواتین امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کبھی سامنے نہیں آئی۔تفصیلات کے مطابق افغانستان میں 3برس کی تاخیر سے افغانستان کے ایوان زیریں کے الیکشن ہونے والے ہیں ،الیکشن میں عوامی حمایت یافتہ سابق وزیر اعظم گل بدین حکمت یار کی حزب اسلامی کی واضح لہر کو دیکھتے ہوئے عالمی طاقتوں نے اس کا راستہ روکنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔مختلف ممالک نے کابل میں واقع اپنےسفارت خانوں کے ذریعے نہ حزب اسلامی کے مخالفین کی بڑے پیمانے پر فنڈنگ شروع کر دی ہے بلکہ مختلف قبائل کے سرداروں سے بھی رابطے شروع کر دیے گئے ۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حزب اسلامی کی لہر کا توڑ کرنے والے ان ممالک میں سے 2ممالک وسط ایشیائی ریاستوں میں شامل ہوتے ہیں اور یہ افغانستان کے ہمسائے بھی ہیں جبکہ ایک ملک کی امریکہ سے کشیدگی عروج پر ہے ۔ تینوں ممالک ماضی میں شمالی اتحاد کی سرپرستی میں بھی آگے آگے رہے ہیں ۔حزب اسلامی نے بھی مختلف ممالک کی جانب سے اپنے مخالفین کو امداد دیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود ان کے خلاف جاری کوششیں ناکامی سے دوچار ہو جائیں گی ۔ حزب اسلامی نے بھی عالمی طاقتوں کی سازش کی تصدیق کر دی ہے۔ایک بیان میں ترجمان حزب اسلامی نے نام ظاہر کئے بغیر الزام عائد کیا کہ افغانستان میں موجود بعض ممالک اپنے سفارت خانوں کے ذریعے اس کے انتخابی مخالفین کی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں۔حزب اسلامی نے انتخابات میں مداخلت کرنے والے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں امن کی خاطر انتخابی معاملات میں مداخلت سے دور رہیں ۔ انتخابات میں مداخلت کے بجائے افغان حکومت کی مدد کی جائے ۔ترجمان حزب اسلامی نے کارکنوں کوہدایت کی وہ انتخابات کے حوالے سے مختلف امور اور صورتحال پر نظر رکھیں۔مخالف جماعتوں کےاس پروپیگنڈے کو نظر انداز کر دیا جائے کہ حزب اسلامی کی ابتک رجسٹریشن نہیں ہوئی ہے ۔یہ لا حاصل بحث ہے۔حزب اسلامی پرانی سیاسی پارٹی ہے اور اس کو جمہوریت و پارلیمانی روایات کے مطابق انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔سابق وزیر اعظم اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے کارکنوں کو انتخابات کی بھر پور تیاری کے ساتھ کام جاری رکھنے اور الیکشن کے روز لوگوں کو بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشن لانے کی ہدایت کی ہے ۔ انہوں نے کارکنوں پر زور دیا ہے کہ وہ جھگڑوں ،دھمکیوں و الزام تراشی کے بجائے مربوط انتخابی مہم چلائیں۔افغان الیکشن کمیشن کے ذرائع نے امت کو بتایا کہ حزب اسلامی نے اپنے 2 لاکھ ارکان کے ناموں کی فہرست جمع کرا دی ہے ۔ یہ تعداد کسی بھی جماعت کے کارکنوں سے زیادہ ہے۔لسٹ میں19 افراد کے پاس امریکی اور یورپی ممالک کی شہریت ہے۔ الیکشن کمیشن نے غیر ملکی شہریت رکھنے والوں کیخلاف پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے تحت انہیں ووٹ ڈالنے و الیکشن لڑنے کا قانونی حق حاصل ہے ۔یہ افراد گلبدین حکمت یار کے کہنے پر واپس آ کر فعال کردار ادا کر رہے ہیں لہذا ان کے خلاف پروپیگنڈا درست نہیں۔آزاد افغان الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ ملک بھر میں واقع اپنے24دفاتر بند کرنے پر غور کر رہا ہے۔بائیو میٹر ک کے سوا کوئی ووٹ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔لوگوں ووٹرز کارڈ ساتھ لانا ہوں گے جو حکومت انہیں پہلے ہی مہیا کر چکی ہے ۔ووٹ خریدنے اور بیچنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔ادھر الیکشن کا وقت قریب آتے ہی افغان طالبان نے الیکشن کے حوالے سے دی گئی دھمکیوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے حملے تیز کر دیے ہیں ۔طالبان نے بدھ کو ہلمند کے صدر مقام لشکر گاہ میں انتخابی مہم کے دوران سابق کیمونسٹ رہنما جنرل عبدالجبار قہرمان ولد محمد حسن کو ریموٹ کنٹرول دھماکے میں اڑانے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ۔طالبان نے عوام سے ایک بار پھر انتخابات سے دور رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہفتہ 20اکتوبر کو حملے کئے جائیں گے ۔اس لئے عوام امریکی منصوبہ ناکام بنانے کیلئے گھرمیں رہیں۔ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جنرل عبدالجبار قہر مان کا تعلق قندھار کے علاقہ سپن بولدک سے ہے اور انہوں نے کابل سے حربی سائنس میں ڈگری حاصل کی تھی۔وہ خلق پارٹی کے مقامی رہنما ہیں جو 10برس تک قندھار کے ضلع میوند کیلئے افغانستان کے فوجی کمانڈر،روسی قبضے کے ایام میں قندھار پولیس کے سربراہ رہے۔روس کی شکست کے بعد عبدالجبار قہر مان افغانستان سے فرار ہوئے اور ان کی واپسی امریکی حملے کے بعد ہوئی ۔انہوں نے گزشتہ برس خلق پارٹی کی طرز پر وطن پارٹی بنا کر سیاست شروع کی۔2014میں انہوں نے طالبان کیخلاف کارروائی میں حصہ لیا تھا ۔عبدالجبار قہرمان ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ سے امیدوار تھے۔طالبان نے پہلے بھی ان پر حملوں کی کوشش کی تھی تاہم ناکام رہے۔ترجمان طالبان قاری محمد یوسف احمدی کا کہنا ہے کہ عبدالجبار قہر مان اور اس کے 4ساتھیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔ حملے میں ان کے کئی ساتھی زخمی بھی ہوئے ۔ ہلمند کے گورنر کے ترجمان عمر زواک کا کہنا ہے کہ بم قہرمان کی کرسی کے نیچے لگا تھا ۔ افغان صدر اشرف غنی اور قومی سلامتی کونسل نے عبدالجبار قہرمان کو دھماکے سے اڑانے کی مذمت کی ہے ۔ اشرف غنی نے حکام کو واقعے میں ملوث افراد کی نشاندہی اور انہیں سبق سکھانے کا حکم دیا ہے ۔افغان وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ پارلیمانی انتخابات کے موقع پر بھر پور سیکورٹی فراہم کی جائے گی ۔ کسی بھی امیدوار کے مسلح حامیوں کو بھی میدان میں ٹکنے نہیں دیا جائے گا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس بار الیکشن میں417خواتین حصہ لے رہی ہیں ۔ماضی میں الیکشن کے دوران خواتین امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کبھی بھی سامنے نہیں آئی۔ 26سال کی دیوا نیازی ننگر ہار سے انتخابی امیدوار ہے جہاں داعش کے دہشت گرد خواتین کے متعدد اسکول تباہ کر چکے ہیں۔ دیوا نیازی نے بھارت سے کمپیوٹر سائنس میں ڈگری لے رکھی ہے ۔دیوا کا کہنا ہے کہ الیکشن لڑنا افغانستان میں کسی چھوٹی موٹی جنگ سے کم نہیں ہے ۔الیکشن لڑنے کے جرم میں مجھے قتل ،زخمی اور حتیٰ کہ اغوا بھی کیا جاسکتا ہے لیکن میں افغانستان کی پارلیمنٹ میں ناخواندہ خواتین کی آواز بننا چاہتی ہوں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment