ویمن بینک میں40فیصد مرد تعیناتیوں سے خواتین پریشان-ہراسگی کی تحقیقات

کراچی(رپورٹ: نواز بھٹو) فرسٹ وومین بینک میں مرد افسران کی طرف سے خاتون افسر کو ہراساں کئے جانے سے متعلق ریجنل محتسب آفس کراچی نے تحقیقات شروع کر دی۔بینک حکام کو جواب داخل کرنے کے لئے 10 دن کی مہلت دے دی گئی۔بینک میں 40 فیصد مردوں کی تعیناتی سے خواتین پریشانی میں مبتلا ہوگئی ہیں۔ مرد افسران کی طرف سے خواتین افسران کو ہراساں کئے جانے سے متعلق پہلا کیس منظر عام پر آنے کے بعد بینک حکام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔وفاقی محتسب کو ارسال درخواست میں خاتون افسر نے الزام لگایا کہ خواتین کے بینک میں مرد افسران کی تعیناتی بینک کے قواعد اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے ۔40 فیصد سے زائد مرد تعینات کردیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق خواتین سے منصوب فرسٹ ویمن بینک میں اہم عہدوں پر تعینات مرد افسران کی طرف سے خواتین افسران کو ہراساں کئے جانے سے متعلق پہلا کیس منظر عام پر آنے کے بعد تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔اس امر کا انکشاف وفاقی محتسب کو آفیسر گریڈ 2 کی زہرہ شیخ نے ارسال کی گئی ایک درخواست میں کیا ہے اس سے قبل زہرہ شیخ نے وفاقی وزیر انسانی حقوق، وزیر خزانہ ، نیشنل کمیشن فار ویمن اسٹیٹس، نیشنل کمیشن فار ہومن رائٹس ، بنک کی صدر اور دیگر حکام کو درخواستیں ارسال کیں جن میں انہوں نے تحفظ فراہم کئے جانے سے متعلق اپیل کی لیکن ان کی درخواستوں پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ زہرہ شیخ کا کہنا ہے کہ درخواستیں ارسال کئے جانے کے بعد جب انصاف فراہم کرنے کی بجائے ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں مزید تیز کر دی گئیں تو انہوں نے وفاقی محتسب کو درخواست ارسال کی ۔ وفاقی محتسب نے درخواست موصول ہونے کے بعد 17 ستمبر 2018 کو ایک لیٹر نمبر No. WMS-ONL/0006251/18 کے ذریعے زہرہ شیخ کو آگاہ کیا گیا کہ ان کی درخواست کارروائی کے لئے ریجنل محتسب آفس کراچی کو ارسال کر دی گئی ہے۔ریجنل محتسب سیکریٹریٹ کی طرف سے26 ستمبر 2018 کو زہرہ شیخ کو لکھے گئے لیٹر نمبر 12/2018 FOSPAH-Reg/khi/670 میں انہیں ہدایت کی گئی وہ 4 اکتوبر کو ریجنل محتسب کے روبرو پیش ہو کر اپنا بیان قلمبند کروائیں اور ثبوت فراہم کریں۔ آفیسر گریڈ 2 کی زہرہ شیخ نے پیش ہوکر اپنا تحریری بیان جمع کروایا اور سارے دستاویزی ثبوت بھی پیش کئے۔ تحریری بیان میں زہرہ شیخ کا کہنا تھا کہ31 اگست 1998 پر لاہور کائی کورٹ کی ڈبل بنچ نے ویمن ایکشن فورم کی دائر درخواست نمبر 25069 میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ فرسٹ ویمن بنک میں سوائے مرد سیکورٹی گارڈ کے بینک میں کوئی مرد بھرتی نہیں کیا جا سکتا اور کوئی بھی مرد سینیئر منیجمینٹ پوسٹ پر کام نہیں کر سکے گا ۔اس فیصلے میں سا بق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی طرف سے 3 دسمبر 1989 میں ویمن بینک کی پہلی صدر اکرم خاتون کو لکھے گئے مکتوب کا بھی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے جس میں کہا تھا کہ اس بینک میں صرف خواتین کو ملازمت ملے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے اس وقت بینک میں 40 فیصد مرد اہم انتظامی عہدوں پر تعینات کر دئیے گئے ہیں۔زہرہ شیخ کی طرف سے اعلیٰ حکام کو ارسال کی گئی درخواست میں کہنا ہے کہ بورڈ آف ڈائریکٹر نے بائی لاز پر عمل نہیں کیا اور نہ ہی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدارآمد کیا جا سکا ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ بینک کی سابق صدر طاہرہ رضا نے بینک قوانین اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے برعکس بینک میں اپنے من پسند مرد حضرات بھرتی کئے اور انہیں اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا اور بینک میں مردوں کی بھرتی کا راستہ کھولا گیا۔ بینک بائی لاز کے مطابق ایسی کسی فرم کو قرضہ نہیں دیا جا سکتا جن کی مالک عورتیں نہ ہوں تاہم 20 سے 50 کروڑ روپے کے قرض ایسی فرمز کو دئیے گئے جن کی سربراہ عورت نہیں تھی اور ان قرضوں کا اسٹیٹ بینک نے بھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔ بینک کے مرد افسران سلیم شفیع آپریشنل ہیڈ، زرغام رحمٰن ریجنل منیجر آپریشنز کی طرف سے انہیں مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ان افسران کی طرف صرف ان خواتین کو ترقیاں اور مراعات دی جاتی ہیں جو ان کی خواہشات پر پورا اترتی ہیں ۔ جب وہ اپنے حقوق کے لئے ان کے دفتر 29 مئی 2018 کو گئیں تو انہیں دھمکایا گیا گیا ہراساں کیا گیا اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے ہوئے دھکے دے کر آفیس سے نکال دیا گیا۔ ان کے ناجائز مطالبات نہ ماننے کی وجہ سے سزا کے طور پر ان کی تعیناتی دور دراز علاقوں میں کر دی جاتی اور ری لوکیشن الاؤنس بھی نہیں دیا جاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں 22 سال کی سروس تک ری لوکیشن الاؤنس ادا نہیں کیا گیا ۔ ان کا کہنا تھا اپنے حق کے لئے چیخ و پکار کرنے کی وجہ سے اور فرسٹ وومین بینک میں مردوں کی بڑھتی ہوئی اجارہ داری کے خاتمے کے لئے بولنے پر انہیں ترقی سے محروم کر دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اس زیادتی کے خلاف بینک کے آپریشن ہیڈ کے دفتر دوپہر ایک بجے کے لگ بھگ پہنچی اور رات کے 8 بجے تک احتجاج کے طور پر بیٹھی رہیں اور رات کو ساڑھے 8 بجے بینک کی سابقہ صدر طاہرہ رضا نے وہاں پہنچ کر انہیں انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی ۔ اور دوسرے روز طلب کر کہ انہیں کہا گیا کہ ان کی درخواست کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی بنائی جائے گی کمیٹی تو نہ بنی البتہ ان کے خلاف انتقامی کاروائیاں تیز کر دی گئیں اور انہیں شوکاز نوٹس جاری کئے گئے اور انہیں دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے زبان بند نہ رکھی تو تین شو کاز نوٹس جاری کرنے کے بعد ان کی ملازمت ختم کر دی جائے گی اس کے علاوہ ان کی ریٹنگ بھی گرا دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کو سزا کے طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیر کسی سبب اور اطلاع کے ان کا تبادلہ کراچی کے علاقے ناظم آباد کر دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 30 اگست 2018 کو صبح ناظم آباد میں برانچ کے قریب بس اسٹاپ پر ان کے ساتھ بد سلوکی کی گئی دوپٹہ سر سے اتارا گیا اور دھکہ دے کر گرانے کی کوشش کی گئی جس کی درخواست اسی تاریخ کو برانچ منیجر کو دی گئی لیکن اس پر کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے لوگوں کو پیچھا کرتے بھی دیکھا ہے۔ محتسب اعلیٰ کو ارسال کئے گئے مکتوب میں انہوں نے ایک فہرست بھی منسلک کی ہے جس میں فرسٹ وومین بینک میں تعینات مرد افسران کے نام اور عہدے شامل ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس عمل پر احتجاج کرنے والی خواتین کا دور دراز علاقوں میں تبادلہ کر دیا جاتا ہے لیکن وہ خواتین افسران انتقامی کارروائیوں کے ڈر سے چپ رہتی ہیں۔

Comments (0)
Add Comment