کراچی (رپورٹ :عمران خان )ڈیڑھ ارب روپے فراڈ کیس کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ الائیڈ بینک لمیٹڈ کی انتظامیہ نے اسکینڈل پر ایف آئی اے کی تحقیقات کو متاثر کرنے کے لئے متعلقہ ریکارڈ جان بوجھ کر ضائع کیا ،دوسری جانب ہائی کورٹ نے بھی الائیڈ بینک فراڈ کیس میں پٹیشن ایف آئی اے کے حق میں فیصلہ سنادیا ہے جس کے بعد ایف آئی اے کو الائیڈ بینک کی انتظامیہ کے خلاف بینکنگ کورٹ میں فائنل چارج شیٹ جمع کروانے کااختیار مل گیا ہے ،امت کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے نے الائیڈ بینک لمیٹڈ کے تین اہم شعبوں کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تاہم بینک انتظامیہ کے خلاف شہریوں کی رقم کا تحفظ نہ کرسکنے پر ایف آئی اے حکام نے اسٹیٹ بینک کو سخت اقدامات کی سفارش کی تاہم آج تک ان سفارشات پر عمل در آمد نہ ہوسکا اور نہ ہی لوٹی گئی رقم بلدیہ عظمیٰ کو واپس مل سکی ہے ،ذرائع کے بقول الائیڈ بینک لمیٹڈ اور کے ایم سی افسران کی ملی بھگت سے کئے گئے ڈیڑھ ارب روپے کے فراڈ کیس میں اب تک الائیڈ بینک انتظامیہ کی جانب سے کے ایم سی کو رقم واپس نہیں کی گئی ،ایف آئی اے ذرائع کے بقول بینک انتظامیہ کی جانب سے فراڈ کی رقم کی ریکوری نہ ہونے سے کے ایم سی کو آج تک بھاری مالی خسارے سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے ،کے ایم سی کے سینکڑوں ایسے ملازمین جنہیں اس رقم سے پینشن ملاکر تی تھی وہ آج بھی الائیڈ بینک کے افسران کی جانب سے کئے گئے فراڈ کی وجہ سے متاثرین میں شامل ہیں ،ایف آئی اے ذرائع کے مطابق بینک میں ہونے والی اس سنگین کرپشن کے معاملے پر تحقیقات مکمل کرکے تمام ثبوت اور شواہد نہ صرف نجی بینکوں کی مانیٹری ادارے اسٹیٹ بینک کو ارسال کردئے گئے بلکہ کے ایم سی کی انتظامیہ کو بھی تحقیقات سے آگاہ کردیا گیا ،ایف آئی اے نے اپنی سفارشات میں اسٹیٹ بینک کو آگاہ کیا ہے کہ الائیڈ بینک لمیٹڈ میں ہونے والایہ فراڈ انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ اس میں بینک کے تین شعبوں کی خامیاں سامنے آئی ہیں جوکہ شہریوں کی رقوم محفوظ بنانے میں ناکام رہے ہیں ،سفارشات میں اسٹیٹ بینک کو لکھا گیا ہے کہ الائیڈ بینک کا مرکزی کیپٹل فنڈ منجمد کرکے اس میں سے فراڈ کے مساوی رقم کٹوتی کے ذریعے کے ایم سی کو ادا کردی جائے تاکہ کے ایم سی کے ساتھ ہونے والے فراڈ اور نقصان کا ازالہ ہوسکے،ایف آئی اے کے بقول یہ فنڈ ادارے کے ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن دینے کے لئے رکھا گیا تھا اور اس نقصان سے ادارے کے سینکڑوں ملازمین معاشی بدحالی کا شکار ہوگئے ہیں، الائیڈ بینک لمیٹڈ میں جس وقت یہ فراڈ ہوا اس وقت نہ تو بینک کی جانب سے اور نہ ہی اسٹیٹ بینک کی جانب سے محفوظ ٹرانزیکشن کے اصولوں پر عمل کیا گیا ،قوانین کی دھجیاں بکھیر ی گئیں اور کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن جو کہ جعلی بینک اکاؤنٹس میں غیر قانونی طریقے سے ہوتی رہیں اس پر نہ تو ایس ٹی آرز(STRs) سسپیشئس ٹرانزیکشن رپورٹس جاری کی گئیں اور نہ ہی ٹرانزیکشن وصول کرنے سے والوں سے پوچھ گچھ کی گئی کہ ان کے اکاؤنٹس میں ارب سے زائد رقم کس مد میں ڈپازٹ ہوئی ہے ،ریکارڈ سے ایک اور حیرت انگیز حقیقت سامنے آئی ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے الائیڈ بینک لمیٹڈ میں ہونے والے اس تاریخ کے بدترین فراڈ پر تحقیقات مکمل کرکے الائیڈ بینک کے خلاف سخت ترین کارروائی کے لئے اسٹیٹ بینک کو 4برس قبل سفارشات ارسال کی گئیں تھیں تاہم آج تک ان سفارشات پر عمل در آمد نہیں کیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے متعلقہ حکام بھی الائیڈ بینک کی بااثر انتظامیہ کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں اور ان کے سامنے ملکی قوانین کوئی معنی نہیں رکھتے ،ایف آئی اے میں موجوددستاویزات کے مطابق یہ معاملہ 2014میں اس وقت سامنے آیا تھا جب کے ایم سی کی جانب سے ایف آئی اے ڈائریکٹر سندھ آفس کو ایک درخواست دی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ الائیڈ بینک لمیٹڈ کی حسن اسکوائر اور سوک سینٹر کی برانچوں میں کے ایم سی کا اربوں روپے کے فنڈ کے لئے2008میں ٹرم ڈپازٹ (DTs) اکاؤنٹس بک کئے گئے تھے اس فنڈ میں سیونگ سرٹیفکیٹس بھی شامل تھے ،یہ فنڈپیشن ،انڈومنٹ فنڈ،بینوولینٹ فنڈز کی مد میں تھا جو کہ منافع کی غرض سے ایک خاص مدت تک کیش نہیں کروائے جاتے تاہم بینک انتظامیہ کی ملی بھگت سے کے ایم سی کے نام پر پروجیکٹ ڈائریکٹرTKRکے عنوان سے ایک مشکوک بینک اکاؤنٹ کے ذریعے کے ایم سی کے فنڈز غیر قانونی طریقے سے ٹرانسفر کئے جاتے رہے اور بعد ازاں یہ فنڈز اس مشکوک Project Director TKRکے اکاؤنٹ سے الائیڈ بینک لمیٹیڈ کی ہی سوک سینٹر برانچ میں شیخ محمد صابرنامی ایک شخص کے نام پر موجود ”ایم ایس بلڈرز“نامی کمپنی کے اکاؤنٹ اور دو مزید کمپنیوںموسیٰ انٹر پرائزرزاور سین فورڈ ایسوسی ایٹس کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کئے گئے یہ کمپنیاں بظاہر ایک بزنس مین شیخ محمد شاہد کے نام پر تھیں ،اس طرح ڈیڑھ ارب روپے تعمیرات کے نام پر کے ایم سی کے جعلی پروجیکٹ ڈائریکٹر کے اکاؤنٹ کے ذریعے ان نجی کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کردئے گئے ،دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ الائیڈ بینک لمیٹڈ کی انتظامیہ فراڈ میں شامل رہی اور نہ تو کرنسی ٹرانسفر رپورٹ جاری کی گئی اور نہ ہی ایس ٹی آررپورٹس جاری کی گئیں ،جب ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کیں توثبوت اور شواہد سامنے آنے پر ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کراچی میں الائیڈ بینک لمیٹڈ کی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور ایف آئی اے سی بی سی سرکل کی ٹیم نے کی جانب سے انٹیرم چالان میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اکاؤنٹس میں دیڑھ ارب روپے کے غبن میں ملوث کے ایم سی کے ڈائریکٹر ناصر محمود اسحاق ، الائیڈ بینک لمیٹڈ سوک سینٹر برانچ کے منیجر اظہر علی خواجہ اور حسن اسکوئر برانچ کے سعید احمد قاضی کوگرفتار کیاجبکہ دوسرے چالان میں ایف آئی اے کی جانب سے بینک کی ایک خاتون افسر سیما طلعت سمیت مرحوم وجاہت حسین کے والد ،بھائی اور اہلیہ کے علاوہ دو درجن کے قریب افراد کو نامزد کرکے تحقیقات میں شامل کیا گیا اور بینک افسر کی جائیداد جس میں جیری کیٹل فارم اور جیری فوڈ وغیرہ شامل تھے ان کو منجمد کرنے کی کارروائی کی گئی،دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے کی ٹیم نے تحقیقات کے دوران الائیڈ بینک کے سوک سینٹر بینک اور حسن اسکوائر برانچ سے کے ایم سی کے اکاؤنٹس سے ہونے والی ٹرانزیکشن کا ریکارڈ طلب کیا جس میں اصل واؤچرز، رسیدیں وغیرہ شامل ہیں وہ کئی بار نوٹس دینے پر بھی فراہم نہیں کیا گیا ، ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کی جانب سے گورنرسندھ کو لکھے گئے لیٹر میں انکشاف کیا گیا کہ الائیڈ بینک کی انتظامیہ نے ریکارڈ جا ن بوجھ کر تباہ اور ضائع کیا تاکہ ایف آئی اے کی تحقیقات کو متاثرہ کیا جاسکے ،ذرائع کے مطابق کے ایم سی کی جانب سے الائیڈ بینک سوک سینٹر برانچ میں کم و بیش 4 ارب روپے کے سیونگ سرٹیفکیٹ اور انویسٹمنٹ موجود تھی جس کے بارے میں کے ایم سی کا دعویٰ تھاکہ بینک میں خورد برد کی گئی تاہم بعض ذرائع کے مطابق بینک انتظامیہ اور کے ایم سی کے درمیان ایک خاموش مفاہمت کے تحت کورٹ کیس واپس لیے جانے کے بعد معاملات صر ف ایک ارب 55 کروڑ روپے تک محدود ہوگئے تھے جو بینک انتظامیہ کی جانب سے واپس کیے جا نے تھے مگر تاحال یہ رقم کے ایم سی کو واپس نہیں کی جاسکی ۔