شام میں امریکی اتحاد کی بمباری سے نمازیوں سمیت 62 جاں بحق – مسجد شہید

بیروت/دمشق(امت نیوز) شام کے مشرقی علاقے دیر الزور میں امریکی اتحاد کی بمباری کے نتیجے میں نمازیوں سمیت کم از کم62افراد جاں بحق ہوگئے جن میں 10 بچے اور متعدد خواتین شامل ہیں۔ وحشیانہ امریکی کارروائیوں کے نتیجے میں ایک مسجد بھی شہید ہوگئی جب کہ دوسری کو نقصان پہنچا ۔ دوسری جانب امریکی حکام نے دعوی کیا ہے کہ مسجد داعش کے زیر استعمال تھی اور یہ کہ مرنے والوں میں بیشتر داعش دہشت گرد ہیں تاہم آزاد ذرائع سے امریکی دعوے کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ادھر ادلب میں اتوار کے روز ایک بم دھماکے میں کم ازکم 3افراد ہلاک اور 13زخمی ہوگئے۔ شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادارے آبزرویٹری کے مطابق داعش کے زیر تسلط دیر الزور میں اتحادی فوج کی بمباری سے شہریوں کا بے پناہ جانی نقصان ہوا ہے۔ مرنے والوں میں زیادہ تر بچے اور عورتیں شامل ہیں۔رامی عبدالرحمان نے بتایا کہ جمعرات کی شب عالمی اتحادی فوج کے طیاروں‌ نے عراقی سرحد کے قریب دیر الزور کے دو مقامات السوسہ اور الببادران میں مساجد پر بمباری کردی جس کے نتیجے میں 10بچوں سمیت41شہری مارے گئے۔ جمعہ کے روز اسی علاقے پر دوبارہ فضائی حملے میں 14 عام شہری لقمہ اجل بنے۔دونوں واقعات میں ایک مسجد شہید ہوگئی جب کہ دوسری کو بھی نقصان پہنچا۔ رامی عبدالرحمان کے مطابق تازہ حملوں کے دوران داعش کے 7جنگجو بھی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ مرنے والے 5افراد کی شناخت نہیں کی جاسکی۔ انسانی حقوق کے آبزرور کا کہنا ہے کہ بمباری کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہوئے جب کہ کئی عمارتوں کے ملبے تلے دب گئے ہیں۔اسی دوران ترکی نے شام کی صورتحال پر 27اکتوبرکو ایک اہم اجلاس طلب کرلیا جس میں روسی اور فرانسیسی صدر کے علاوہ جرمن چانسلر بھی شریک ہوں گی۔ترک حکام کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق اس کانفرنس میں شامی تنازعے کے دیرپا حل پر توجہ مرکوز کی جائے گی، باالخصوص شامی شہر ادلب سے متعلق لائحہ عمل بھی ترتیب دیا جائے گا۔دریں اثنا ایک امریکی ٹی وی چینل نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے شام سے ایرانی فورسز کے انخلاء کا ایک نیا منصوبہ تیار کیا ہے۔ٹی وی چینل نے پانچ امریکی عہدیداروں کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکا شام میں براہ راست ایرانی ملیشیا پر حملے نہیں کرے گا۔واشنگٹن کے اس نئے تزویراتی منصوبے کے تحت امریکی فوج شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھے گی مگر ایرانی ملیشیا کوبیدخل کرنے کے لیے سفارتی اور اقتصادی دباؤ کا حربہ استعمال کیا جائے گا۔

Comments (0)
Add Comment