ریاض(امت نیوز) صحافی جمال خشوگی کی استنبول ترکی کے قونصلیٹ میں ہلاکت کے حوالے سے سعودی عرب کا نیا بیانیہ سامنے آ گیا ہے جو ایک روز قبل بیان کی گئی وضاحت کے برعکس ہے ۔برطانوی خبر ایجنسی کے مطابق نئی کہانی ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی ہے ۔ان تفصیلات کی ایک اور اعلیٰ سعودی عہدیدار نے تصدیق بھی کی ۔نئی کہانی میں خشوگی سے نمٹنے کیلئے 15 رکنی ٹیم بھیجنے کی تفصیل بھی شامل ہیں ۔ سعودی ٹیم نے نشے کی حالت میں خشوگی کو دھمکایا،اغوا کیا اور مزاحمت پر گلا دبا کر قتل کر دیا ۔قتل کے بعد سعودی ٹیم کا ایک ممبر خشوگی کے کپڑے،چشمے پہن کر قونصل خانے سے باہر بھی گیا تاکہ ظاہر کیا جاسکے کہ خشوگی قونصل خانے سے باہر جا چکا ہے۔سعودی عہدیدار کے مطابق ہلاکت کے بعد جمال خشوگی کی لاش ایک بڑے قالین میں لپیٹ کر قونصل خانے سے باہر لے جائے گئی اور اسے ایک مقامی معاون کے حوالے کر دیا گیا تاکہ لاش سے چھٹکارا پایا جاسکے ۔جمال خشوگی پر تشدد اور لاش کے ٹکڑے کئے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات ثابت نہیں ہوئی ۔انہوں نے سعودی انٹیلی جنس کی کئی خفیہ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں خشوگی سمیت کئی منحرفین کو وطن واپس لانے کی بات کی گئی ہے ۔سعودی عہدیدار نے خشوگی کے قتل کے معاملے پر داخلی تحقیقات کے نتائج کے بارے میں خاموشی اختیار کئے رکھی ۔انہوں نے بتایا کہ خشوگی کے معاملے میں پہلے سرکاری موقف داخلی رپورٹوں کی بنیاد پر اپنایا گیا تاہم ترکی کی جانب سے آڈیو ریکارڈنگ کی موجودگی کے انکشاف پر داخلی تحقیقات شروع کر دی گئیں اور اعلیٰ سطح کا وفد ترکی بھیجا گیا ۔جنرل انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل احمد العسیری نے فورسز اور انٹیلی جنس حکام پر مشتمل 15 رکنی ٹیم بنا کر اسے استنبول بھیجا تھا تاکہ خشوگی کو وطن واپسی پر قائل کیا جاسکے ، اس نے اس ضمن میں ولی عہد کے مشیر سعود القحطانی سے بھی بات کی ۔ قحطانی اور جمال خشوگی ایک وقت میں لندن کے سعودی سفارتخانے میں ایک ساتھ کام کر چکے تھے ۔ قحطانی نے خشوگی سے بات چیت کیلئے ایک اہلکار کو نامزد کیا ۔منصوبے کے تحت خشوگی کو اغوا کر کے استنبول کے قریب واقع ایک سیف ہاؤس میں کچھ عرصہ رکھ کر مذاکرات کئے جانے تھے تاہم حتمی انکار پر اسے رہا کر دیا جاتا لیکن ابتدا میں ہی گڑ بڑ ہو گئی اور ٹیم کے ارکان نے احکامات سے تجاوز کرتے ہوئے تشدد شروع کر دیا ۔قونصل جنرل کے دفتر میں خفیہ ادارے کے افسر کرنل ماہر مطریب نے اسے سعودیہ واپسی پر قائل کرنے کی کوشش کی ۔اس پر خشوگی نے مطریب کو بتایا کہ قونصل خانے کے باہر کوئی اس کا منتظر ہے ۔ اگر میں ایک گھنٹے کے اندر باہر نہ گیا تو وہ ترک حکام سے رابطہ کرے گا ۔اس موقع پر خشوگی نے کہا کہ تم میرے ساتھ کیا کرنے والے ہو۔ کیا مجھے اغوا کرو گے ۔ اس پر مطریب نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہوگا ۔جب خشوگی نے چلانا شروع کیا تو سعودی ٹیم کے ارکان نے جھنجھلاہٹ میں اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر گلا دبا دیا جس کے نتیجے میں وہ دم توڑ گیا ۔سعودی ٹیم کی نیت اسے قتل کرنا نہیں تھا تاہم جمال جیسی عمر کے کسی بھی فرد کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہو تو وہ مر ہی جائے گا ۔اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کیلئے سعودی ٹیم خشوگی کی لاش کو ایک بڑے قالین میں لے کر باہر گئی اور اسے استنبول کے رہائشی مقامی معاون کے حوالے کر دیا تاکہ لاش سے چھٹکارا پایا جاسکے ۔ڈاکٹر صالح طوبیگی نے قتل کے شواہد کو مٹانے کی کوشش کی جبکہ ٹیم کا ایک رکن مصطفیٰ مدنی خشوگی کے کپڑے،چشمہ و ایپل واچ پہن کر قونصلیٹ سے باہر نکلا تاکہ ظاہر کیا جاسکے کہ خشوگی قونصل خانے سے باہر جا چکا ہے ۔ مصطفیٰ مدنی نے استنبول کے ضلع سلطان احمد پہنچ کر خشوگی کی اشیا کو تلف کیا ۔اس سب کے بعد ٹیم نے اپنے اعلیٰ حکام کو رپورٹ دی کہ ترک حکام کی مداخلت کی دھمکی پر خشوگی کو قونصل خانے سے باہر جانے کی اجازت دیدی گئی اور جلدی میں ترکی سے نکل گئے تا کہ وہ ترک حکام کے ہتھے نہ لگ سکیں ۔