الائیڈ بینک انتظامیہ ڈپازٹ بڑھانے کیلئے فراڈ چھپاتی رہی

کراچی( اسٹاف رپورٹر) الائیڈ بینک کی انتظامیہ ڈپازٹ بڑھانے کیلئے فراڈ چھپاتی رہی۔ کئی برسوں تک اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ اور کاؤنٹر ٹیررازم فنڈنگ کے قوانین کی خلاف ورزی کی گئی۔کروڑوں روپے کی مشکوک اور غیر قانونی ٹرانزیکشنز پر الائیڈ بینک کی جانب سے اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کوکرنسی ٹرانزیکشن رپورٹ ،سی ٹی آر اور سسپیشیئس(مشکوک) ٹرانزیکشن رپورٹ ،ایس ٹی آر نہیں جاری کی گئیں جس کے نتیجے میں کھاتے داروں کے ساتھ الائیڈ بینک کے افسران برسوں تک باآسانی کروڑوں روپے کا فراڈ کرتے رہے۔ ذرائع کے مطابق الائیڈ بینک کے افسران کے خلاف ایف آئی اے میں اربوں روپے کے بینک فراڈ پر درج ہونے والے تین مقدمات کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ الائیڈ بینک کے افسران نے کھاتے داروں کو فراڈ سے بے خبر رکھنے کے لئے ان کے بینک اکاؤنٹس کے کوائف میں درج پتے بھی تبدیل کئے تاکہ ان کھاتے داروں کو اکاؤنٹ سے رقم کی ٹرانزیکشن کی بینک اسٹیٹ منٹ ہی نہ موصول ہوسکے ،تحقیقات میں مزید سامنے آیا ہے کہ الائیڈ بینک میں کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ”تیسر ٹاؤن کے رہائشی منصوبے “ کے سرکاری فنڈز میں بھی خورد برد کی گئی ،امت کو ذرائع سے دستیاب ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ الائیڈ بینک کی مختلف برانچوں میں بینک کے کھاتے داروں کے اکاؤنٹس سے کروڑوں روپے کی رقم نکال کر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے رقم کیش کروانے والے الائیڈ بینک کے افسران کئی برسوں تک فراڈ کرتے رہے تاہم اس دوران بینک کے تین اہم شعبے آپریشن،کمپلائنس اور آڈٹ کھاتے داروں کو فراڈ سے بچانے میں مکمل طور پر ناکام رہے ،ایف آئی اے تحقیقات کے دوران تیار کی جانے والی ایک رپورٹ میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ الائیڈ بینک کے ان تینوں اہم شعبوں کے علم میں یہ فراڈ کیسے نہیں آسکے کیونکہ کسی بھی بینک کے شعبہ آڈٹ کی اہمیت اس لئے ہوتی ہے کہ اس کے تحت بینک میں معمول کے مطابق اور ہنگامی بنیادوں پر آڈٹ کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس دوران فراڈ ،کرپشن اور غیر قانونی سرگرمیوں کا چھپنا ناممکن رہتا ہے اسی طرح سے کمپلائنس کا شعبہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جس کے افسران کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اسٹیٹ بینک اور ملکی قوانین پر عمل در آمد کو یقینی بنائیں تاہم الائیڈ بینک کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ الائیڈ بینک کا شعبہ کمپلائنس، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ اور کاؤنٹر ٹیررازم فنڈنگ کے ملکی قوامین پر عمل در آمد کروانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ،رپورٹ کے مطابق جس وقت اسٹیٹ بینک کے قوانین کے تحت 25لاکھ یا اس سے زائد مالیت کی رقم کی ہر ٹرانزیکشن پر الائیڈ بینک انتظامیہ اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو رپورٹ ارسال کرنے کی پابند تھی اس وقت کئی برسوں تک اس قانون پر عمل نہیں کیا گیا درجنوں اکاؤنٹ سے ہونے والی کروڑوں روپے کی بینک ٹرانزیکشن پر کوئی بھی سی ٹی آر اور ایس ٹی آر اسٹیٹ بینک کو جاری نہیں کی گئی جو کہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 7اور دفعہ 33کی واضح خلاف ورزی ہے اور انہی دفعات کے تحت بینک انتظامیہ کے خلاف گورنر اسٹیٹ بینک کو سخت جرمانہ عائد کرنے اور انتظامیہ میں شامل ذمے داروں کا تعین کرنے کی سفارش کی گئی ہے ، رپورٹ کے مطابق اگر الائیڈ بینک کا کمپلائنس ڈپارٹمنٹ اپنی ذمے داری پوری کرتا اور اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو ان کروڑوں روپے کی غیر قانونی اور مشکوک ٹرانزیکشنز پر سی ٹی آر اور ایس ٹی آر جاری کی جاتیں تو ملزمان کئی برس پہلے ہی پکڑے جاتے اور کھاتے داروں کو نقصان سے بچایا جاسکتا تھا رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ الائیڈ بینک کی انتظامیہ چونکہ اپنے بینک میں اربوں روپے کے سرکاری اداروں کے فنڈز کی موجودگی پر مطمئن تھی اور بینک کے سرمایہ میں اضافے کی لالچ میں ان فراڈز کی پردہ پوشی کی جاتی رہی۔

Comments (0)
Add Comment