تہران(امت نیوز)ایران میں حکمراں نظام کی مخالف مسلح بلوچوں کی جماعت جیش العدل نے اپنے قبضے میں موجود 12 ایرانی فوجی اہل کاروں کے نام اور تصاویر جاری کردیں جنہیں 16 اکتوبر کو ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقے سے اغوا کیا گیا تھا۔ گروپ کے ٹیلیگرام چینل اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے 21 اکتوبر کو پوسٹ کیے جانے والے بیان میں جیش العدل نے کہا: ‘انصاف کی خاطر جیش العدل تنظیم ان لوگوں کے ناموں کا اعلان کر رہی ہے جسے لولکدان علاقے کے ریگ مالک ضلع میں بدر تھری بیس سے قبضے میں لیا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے کمانڈوز کے اراکین میں عباس عابدی، محمد معتمدی سادہ، پدرم موسوی، کیانش بابائے فیریدانی حیدری، اور مہرداد ابان کے نام ہیں۔ جبکہ ایرانی پاسداران انقلاب کے ارکان میں ماجد ناروئی، محمود ہارموزی، رسول گمشادزہی، سعید ریگی، زبیر ریگی، بہروز ریگی، عبدالکریم ریگی شامل ہیں۔ تنظیم کے ٹیلیگرام اکاؤنٹ پر دو تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں جن میں 12محافظوں کو زمین پر ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ڈھیر کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایرانی حکام نے تصاویر مصدقہ ہونے کی بالواسطہ تصدیق کرتے ہوئے اپنے اس دعوے کو دہرایاہے کہ مغوی فوجیوں کو پاکستان لے جایا گیا ہے اور یہ کہ اسلام آباد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی بازیابی میں تعاون کرے۔ وزارت خارجہ میں محکمہ سرحدی امور کے ڈائریکٹر جنرل شہریار حیدری نے کہا کہ تمام مغوی اہل کار اچھی حالت میں اور سلامت ہیں ۔ ہم ان کی جلد بازیابی کیلئے کوششیں کر رہے ہیں اور اس ضمن میں پاکستانی حکام سے بھی رابطے میں ہیں۔ ایرانی مہر نیوز ایجنسی کے مطابق انہوں نے کہا کہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر بریگیڈئیر جنرل محمد پاک پور کی قیادت میں ایک عسکری وفد پاکستان میں موجود ہے اور اس حوالے سے مذاکرات کر رہا ہے۔ جب کہ وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ پاکستان میں ایرانی سفارتخانہ اور ایران میں پاکستانی سفارتخانہ اسی طرح ایران کے وزرائے داخلہ اور دفاع، اغوا کئے گئے ایرانی سرحدی محافظین کی بازیابی کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایران سے ملحقہ سرحد پر سیکیورٹی بڑھادے تاکہ اس قسم کے واقعات دوبارہ پیش نہ آسکیں۔واضح رہے کہ بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ ایرانی دعوے کو پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔امریکی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے اکبرعلی شکوہ نے اغواءکاروں کی پاکستان میں داخلے کی بات کو غلط قراردیا اور کہا کہ پاک ایران سرحد پر پاکستان کی طرف سے ہر جگہ مناسب سیکورٹی ہر وقت موجود ہوتی ہے۔مسلح افراد کے ہاتھوں ایرانی عسکری اہل کاروں کے اغوا کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ رواں برس اپریل میں سیستان صوبے میں ایرانی سرحدی محافظین کی کمان نے ایک اعلان میں بتایا تھا کہ ایک مسلح گروپ کے ساتھ جھڑپوں کے دوران سرحدی سکیورٹی کی ذمّے داری نبھانے والے پاسداران انقلاب کے 4اہل کار ہلاک ہو گئے۔ حالیہ برسوں میں سیستان اور بلوچستان صوبوں کی مسلح تنظیموں نے ایرانی فوج کو مسلسل نشانہ بنایا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ان تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کی جن کی بنیادیں اس ملک میں ہیں۔ سیستان اور بلوچستان صوبوں میں سکیورٹی کمزور رہی ہے اور وہاں 2005سے یرغمال بنانے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ جنداللہ کے سابق رہنما عبدالمالک ریگی کی گرفتاری اور پھانسی بھی ان حملوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔