کراچی (اسٹاف رپورٹر) ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمدسعید نے کہا ہے کہ بانی ایم کیو ایم پاکستان آئے، تو انھیں گرفتار کریں گے،وہ پاکستان آئیں اور مقدمات کا سامنا کریں،ایم کیو ایم لندن کےساتھ جرائم پیشہ افرادکانیٹ ورک آج بھی ہے، شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کے حوالے سے ترجمان رینجرز کی جانب سے جاری کردہ مسودے کے مطابق میجر جنرل محمدسعید نے کہا کہ کسی کو لگتا ہے الیکشن میں دھاندلی میں رینجرزملوث تھی تو ثبوت کیساتھ قانونی طور پر درخواست دے،جو امید وار جس پولنگ اسٹیشن سے ہارا وہاں سیاسی جماعت کے پولنگ ایجنٹ نے خود ہی فارم لینے سے منع کردیا،کراچی کے عوام جہاں جس علاقے میں جانا چاہیں جاسکتے ہیں،کراچی کے لوگ دائیں بائیں نظررکھیں کہیں کوئی مشکوک سرگرمیاں تو نہیں ہورہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی کئی دہائیوں تک لسانی سیاست کا شکار رہنے کے بعد بھی قومی سیاست میں واپسی خوش آئند ہے، اس عمل کو آگے چلنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے حالات کو آج کی نظر سے دیکھیں گے تو صورتحال واضح نہیں ہوگی، کراچی سے متعلق5 سے10سال کا ریکارڈ ہمارے پاس بھی موجود ہے، ریکارڈ سے پہلے دیکھنا ہوگا کراچی کے مسائل کیا تھے۔ 1985سے ستمبر 2013تک مجموعی طور پر92ہزار لوگ مرے۔کراچی میں ہر ماہ دہشت گردی کے7واقعات ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی لیڈرشپ نے قانون بنایا اور ایک فورس کو اختیارات دیئے، یہ اختیارات 1992 میں مل جاتے تو 2013میں کراچی کی صورتحال یہ نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ رینجرزکو کراچی میں 4جرائم کی روک تھام کیلئے2013ستمبر میں اختیارات ملے، دنیا میں بھی ایسا ہوتا ہے،کیا رینجرز کی کراچی میں تعیناتی بہت انوکھی ہے، لندن میں پولیس کے 4دفاتر اور افرادی قوت 60ہزار کے قریب ہے،کراچی میں جرائم کو دیکھتے ہوئے کیا 14ہزار اہلکار کی تعداد کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں کہیں بھی بچوں کے اغوا کے واقعات نہیں ہوئے،کراچی میں بچوں کے اغوا کا پروپیگنڈا کس نے کیا اسے دیکھ رہے ہیں۔چاقو بردار شخص کو نہ پکڑنا ہماری اور پولیس کی ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں گاڑیوں کے چھیننے اور موبائل اسنیچنگ کے واقعات میں بھی ہر سال کمی ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بطور ڈی جی رینجرز میں حکومت پر تنقید نہیں کرسکتا، اومنی گروپ کے دفتر پر چھاپہ اسلحہ کی اطلاع پر کیاگیا تھا، ہائی پروفائل کیسز میں پولیس چھاپہ مارتی ہے رینجرز کو اسکواڈ میں رکھاجاتاہے، رینجرزکی موجودگی سے تاثر جاتا ہے کہ رینجرز نے چھاپہ مارا، عزیر بلوچ رینجرز کی کسٹڈی میں اس وقت تھا جب گرفتار ہوا تھا، عزیر بلوچ کا کیس ملٹری کورٹ میں ہے اس پر متعلقہ حکام ہی بتاسکتے ہیں۔ ڈی جی رینجرز کا کہنا تھا کہ جرائم سے متعلق بہت سی جے آئی ٹی میں حماد صدیقی کا نام موجود ہے، بلدیہ فیکٹری کیس میں گرفتار زبیر چریا اور رحمان بھولا جیل میں ہے،2013سے ایم کیوایم لندن سے تعلق رکھنے والے171لوگوں کو سزا ہوچکی ہے، رینجرز کے پاس اپنے 8پراسیکیوٹر ہیں، جرائم کے بڑے ناموں کا کیس ہم فالو کرتے ہیں، جرائم کی وارداتوں میں ملوث ملزمان کو سزائیں مل رہی ہیں۔ کراچی میں الیکشن میں مجموعی طورپر 2013میں ٹرن آؤٹ 42فیصد اور2018میں 48فیصد تھا، رینجرز 2013سے تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے میں رہی ہے ، سیاسی جماعتوں نے جرائم ختم کرنے کیلئے رینجرز،پولیس کو مینڈیٹ دیا تھا۔ڈی جی رینجرز نے کہا کہ لیاری کے علاقے میں کرائم ریٹ سب سے کم ہے ،کون جیتا یا ہارا اس سے تعلق نہیں مگر لیاری میں پورے الیکشن میں ایک گولی نہیں چلی ،جہاں جہاں ٹارگٹ کلر یا بھتہ خور موجود تھے وہاں وہاں کارروائیاں کی گئیں۔