کراچی(اسٹاف رپورٹر)جے آئی ٹی حکام نے اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید سمیت دیگر کو بچانے کے لیے حکومتی خزانے سے وکیل کو ہونے والی لاکھوں روپے کی ادائیگی سے متعلق دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنالیا ہے۔اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر حاکم علی شیخ نے پولیس اور رینجرز کی معاونت کرنے کی بجائے اومنی گروپ کی معاونت کی تھی۔تفصیلات کے مطابق جے آئی ٹی حکام عدالت عظمیٰ کے احکامات پر منی لانڈرنگ کیس میں تفصیلی رپورٹ تیار کررہے ہیں جے آئی ٹی حکام کو ملنے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ رینجرز کی جانب سے 24 دسمبر 2016 کو صدر اور میٹھادر کے علاقوں میں قائم اومنی گروپ کے دفاتر پر چھاپہ مار کر غیر قانونی کلاشنکوف،ایس ایم جی گن، بال بم برآمد کئے جانے کے بعد صدر اور میٹھادر پولیس نے انورمجید اور گروپ ہیڈ خواجہ سلمان یونس اور دیگر ذمے داران اومنی کمپنی کے خلاف مقدمات درج کیے تھے۔ دستاویزات سے جے آئی ٹی حکام کو معلوم ہوا کہ سابق پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے اعلیٰ حکام کی ہدایت پر اومنی گروپ کے عہدیداران کے خلاف درج مقدمے میں حاکم علی شیخ کو اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر تعینات کیا۔ پراسیکیوٹر نے پولیس اور رینجرز کی پراسیکیویشن میں معاونت کرنے کے بجائے اومنی گروپ کی حمایت کی اور کیس کو کمزور کردیا تاکہ انور مجید خواجہ سلمان یونس کو قانونی ریلیف دلایا جاسکے ذرائع نے بتایا ہے کہ اسپشل پبلک پراسیکیوٹر کو اومنی گروپ کی معاونت کے لیے حکومتی خزانے سے لاکھوں روپے فیس ادا کی گئی تھی جبکہ دیگر مراعات علیحدہ سے فراہم کی گئیں تھیں۔جبکہ اسپشل پبلک پراسیکیوٹر کی ذمہ داری تھی کہ وہ ٹرائل کے دوران پولیس اور رینجرز حکام کی معاونت کریں لیکن ایسا نہیں ہوا لہذا اومنی گروپ کو فائدہ دلانے کےلیے اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا ہے جس میں حکومتی اور پراسیکیویشن حکام ملوث ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ اومنی گروپ نے مقدمات کی پیروی کے لیے فاروق ایچ نائیک کی خدمات حاصل کی ہوئی تھیں لیکن سابق پراسیکیوٹر جنرل سندھ کی ہدایات پر اسپشل پبلک پراسیکیوٹر اومنی گروپ کو ریلف دلانے میں مصروف تھے۔ وکیل کا یہ اقدام مس کنڈیکٹ کے ضمرے میں آتا ہے جبکہ غیر قانونی اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد برآمدگی کے مقدمہ کو ناکافی شواہد کی بناء پر اے کلاس کرادیا گیا تھا۔