کرپشن تحقیقات سے 258 ارب کے منصوبوں کو بریک لگ گئی

کراچی (رپورٹ:ارشاد کھوکھر) ملک بھر میں کرپشن کیخلاف مختلف اداروں کےمتحرک ہونے سے بیورو کریسی کے محتاط ہونے، فنڈز کے اجرا تاخیر اور دیگر اسباب کے باعث سندھ میں 258 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں کو بریک لگ گئی۔ رواں مالی سال کے پہلے ساڑھے تین ماہ کے دوران صرف 7 فیصد فنڈز خرچ ہوسکے ہیں ،جبکہ وفاقی فنڈنگ سے سندھ میں حکومت سندھ کے زیر انتظام چلنے والے منصوبوں کیلئے وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کی مد میں ایک روپے بھی جاری نہیں کئے ہیں۔ اس ضمن میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے رواں مالی سال 2018-19کے بجٹ میں صوبے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام اے ڈی پی کے 2ہزار 226 جاری ترقیاتی منصوبوں کیلئے 202ارب اور 25نئے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 21ارب روپے مختص کئے ہیں۔ سندھ کے محکمہ خزانہ مذکورہ جاری ترقیاتی منصوبوں کیلئے اب تک تقریباً 48ارب روپے جاری کرچکا ہے۔ یکم جولائی 2018سے شروع ہونے والے رواں مالی سال شروع ہوئے ساڑھے تین ماہ گزر چکے ہیں ، تاہم 15اکتوبر تک مذکورہ میں 16ارب روپے سے بھی کم یعنی تقریباً 7فیصد فنڈز خرچ ہوسکے ہیں۔ اس طرح رواں مالی سال کے بجٹ میں ضلعی اے ڈی پی کے جاری ترقیاتی منصوبوں کیلئے 25ارب اور نئے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 10ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ضلعی اے ڈی پی کے جاری ترقیات منصوبوں کیلئے تقریباً سوا 8ارب روپے جاری کئے گئے ہیں جن میں خرچ صرف تقریباً ایک ارب 80روپے یعنی تقریباً سوا پانچ فیصد فنڈز ہوسکیں ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی فنڈنگ سے چلنے والے ایسے ترقیاتی منصوبے جن کو حکومت سندھ کے زیر انتظام عملدرآمد کیا جاتا ہے ۔ ان منصوبوں کیلئے وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں تقریباً 15ارب روپے مختص کئے ہیں ، لیکن وفاقی حکومت نے مذکورہ منصوبوں رواں مالی سال کے بجٹ کی مد میں تاحال ایک روپے بھی جاری نہیں کئے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں پر کام کی رفتار سست روی کا شکار ہونے کے متعلق حکومت سندھ کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا تھا کہ اس کے مختلف اسباب ہیں ، جن میں سے ایک سبب تو یہ ہے کہ کرپشن کیخلاف نیب، ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے سرگرم ہوجانے اور ساتھ منی لانڈرنگ کا اسکینڈل سامنے آنے سے بیورو کریسی بھی زیادہ محتاط ہوگئی ہے اور سندھ میں عملی طور پر غیر یقینی والی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ مذکورہ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ یہ صورتحال صرف سندھ میں نہیں ، بلکہ دیگر صوبوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس کا دوسرا سبب یہ ہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے سلسلے میں نگران سیٹ اپ آنے سے جاری ترقیاتی منصوبوں پر کام رک گیا تھا اور محکمہ خزانہ نے عام انتخابات کی تاریخ ختم ہوجانے کے بعد 26جولائی سے جاری فنڈز کا اجراشروع کیا اور اب تک نئے ترقیاتی منصوبوں کیلئے جو تقریباً 31ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ان کیلئے اب تک فنڈز اس لئے جاری نہیں کئے گئے ہیں کہ نگران حکومت کے دوران نئے ترقیاتی منصوبوں پر پابندی تھی اور نئی منتخب صوبائی حکومت نے نئے ترقیاتی منصوبوں کی سندھ اسمبلی سے منظوری 30ستمبر کو لی ہے۔ اب ان ترقیاتی منصوبوں کی ڈی ڈی ڈبلیو پی، بی ڈی ڈی ڈبلیو اور دیگر متعلقہ فورمز سے منظوری کا مرحلہ آئے گا ، جس میں 3ماہ تک لگتے ہیں ، جس کے بعد ان کے منصوبوں کیلئے فنڈز جاری ہوسکیں گے۔مذکورہ ذرائع کا موقف تھا کہ اس معاملے میں سست روی کا ایک یہ بھی سبب ہے کہ کا بل تقسیم پول میں فنڈز کی وصولیابی کم ہونے کے ساتھ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو حصے سے کم فنڈز جاری کررہی ہے اور اس ضمن حکومت سندھ کو گزشتہ مالی سال کے حصے کی فنڈز سے کم جاری کردہ تقریباً 13ارب روپے بھی اب تک وفاقی حکومت نے جاری نہیں کئے ہیں۔ اس لئے آمدنی اور اخراجات میں توازن رکھنے کیلئے کئی جاری ترقیاتی منصوبوں کیلئے بھی حکومت سندھ فنڈز جاری نہیں کرسکی ہے۔

Comments (0)
Add Comment