اسلام آباد(خبرنگارخصوصی)پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن( پی او اے)نے ملک میں کھیلوں کی تباہی کا ذمہ دار وفاقی حکومت اور پاکستان اسپورٹس بورڈ(پی ایس بی) کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی او اے کا ملک میں کھیلوں کی ترقی میں کوئی کردار ہے اور نہ کوئی ذمہ داری۔’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے پی او اے کے سیکرٹری خالد محمود کا کہنا تھا کہ پی او اے کا ملک میں کھیلوں کی ترقی یا تنزلی میں کوئی کردار نہیں۔ اس کی بنیادی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، جس کے بعد اسپورٹس بورڈ اور فیڈریشنز ذمہ دار ہیں، لیکن پی او اے کا کھیلوں کی ترقی سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔ ہمارا کام مختلف کھیلوں کے لیے ٹیموں کو بیرون ملک مقابلوں میں بھجوانا ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ پی او اے اور فیڈریشنز پر طویل عرصے سے چند لوگ قبضہ کیے بیٹھے ہیں اور قومی اسپورٹس پالیسی پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا، تو ان کا کہنا تھا کہ قومی اسپورٹس پالیسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 2012سے اسپورٹس پالیسی پر عمل درآمد کی باتیں کر کے قومی کھیلوں کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔ آئی او سی کا صدر 20برس سے اور او سی اے کا صدر 26سال سے اس عہدے پر کیوں بیٹھے ہیں، پروفیسر انور چوہدری کیوں باکسنگ فیڈریشن کے صدر رہے، ان سے بھی پوچھا جائے۔ دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا، کہ پی او اے سے پوچھا جائے کہ اس کے عہدے دار طویل عرصے سے عہدوں پر کیوں قابض ہیں۔ یہ فیڈریشنز اور پی او اے کی جنرل کونسلز کا اختیار ہے کہ وہ اپنے عہدے داروں کی مدت کا تعین کرے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پی او اے کے متوازی اولمپک ایسوسی ایشن بنوائی جس پر عالمی اولمپک ایسوسی ایشن نے قرار دیا کہ اسپورٹس فیڈ ریشنز کی مرضی ہے کہ وہ اسپورٹس پالیسی پر عمل کریں یا نہ کریں، حکومت انہیں پابند نہیں کر سکتی۔انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر کھیلوں کے مقابلوں میں خراب کارکردگی دکھانے کی ذمہ داری پی او اے پر نہیں، بلکہ فیڈریشنز پر عاید ہوتی ہے۔ ملک میں کھیلوں کے لیے بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں، نوجوانوں کے لیے کھیلوں کی سہولیات دستیاب نہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک کی 90فیصد آبادی اپنے بچوں کی کھیلوں جیسی سرگرمیوں میں شرکت پسند نہیں کرتے، جس کے نتیجے میں ملک میں کھیلوں کا معیار گرا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ سہولیات کا شدید فقدان ہونے کے باوجود ماضی میں عالمی مقابلوں میں پاکستانی پرچم لہراتا تھا اور قومی ترانہ بجتا تھا، لیکن اب سہولیات میں بہتری کے باوجود کھیلوں کی دنیا میں پاکستان کی کارکردگی خراب تر ہوتی جا رہی ہے، تو ان کا کہنا تھاکہ فیڈریشنز کو فراہم کردہ فنڈز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سیکرٹری آئی پی سی سمیت سب کو بتا چکا ہوں کہ فیڈریشنز کوفنڈزآڈٹ کے بعد فراہم کیےجاتے ہیں،جبکہ چندفیڈریشنز کا خصوصی آڈٹ بھی کروایاجاتاہے،اس لیے فیڈریشنز کھیلوں کی تنزلی کاباعث نہیں۔ جب ان سےپوچھا گیا کہ ہرسرکاری محکمےمیں آڈٹ ہوتا ہے،لیکن اسکے باوجودکرپشن کے کیسز سامنےآتے ہیں، جس پر ان کا کہنا تھا کہ جن فیڈریشنز کو فنڈز فراہم کیے گئے ہیں ان کا آڈٹ ہونا چاہیے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک فیڈریشن کو حکومت صرف15لاکھ روپے سالانہ فنڈز دیتی ہے تو اس کا کیا آڈٹ کیا جائے گا، لیکن ہم کسی فیڈریشن کا آڈٹ نہ کروانے کی حمایت بھی نہیں کریں گے۔فیڈریشنز حکام کے انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے اور من پسند افراد کو بیرونی دورے کروانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس پر فوری ایکشن ہونا چاہیے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔انکا کہنا تھا کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے سال 2012کے بعد پاکستان اسپورٹس بورڈ کے کسی معاملے میں مداخلت نہیں کی۔انہوں نے باکسنگ سمیت کسی بھی فیڈریشن سے پی او اے کا کوئی تعلق ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پی او اے کا کام فیڈریشن کی کارکردگی میں اضافہ نہیں، بلکہ صرف عالمی مقابلوں کیلئے سہولت فراہم کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ پی او اے انٹرنیشنل اولمپک ایسوسی ایشن اور اولمپک کونسل آف ایشا کی جانب سے فیڈریشنز میں گڈ گورننس، استعداد میں اضافے اور وظائف وغیرہ کی تقسیم جیسے پروگرامات کا انعقاد کرتی ہے۔