اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) ایف آئی اے نے پاکستانیوں کی بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق عبوری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ۔ جس میں بتایا گیاہےکہ سیاسی شخصیات اور ان سے وابستہ 35 افراد کی دبئی میں املاک ہیں۔ امارات کےشہر میں 3570 پاکستانیوں نے 1015ارب کی جائیدادیں بنائیں۔150 پاکستانیوں نے املاک چھپانے کا اعتراف کرلیا ،جب کہ غیرقانونی اثاثے بنانے والوں کی کل تعداد اب تک کی تفتیش کے مطابق 900 نکلی ہے۔دوسری جانب ایف بی آر نے بیرون ملک جائیداویں بنانے والوں کیخلاف کارروائی سے معذوری ظاہر کردی ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے عدالت میں ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہاکہ جن افراد نے بیرون ملک اثاثے بنائے ہیں ،ان کیخلاف مقدمہ نہیں کیا جاسکتا ۔باہر ٹیکس ادانہ کرنے کی صورت میں بھی ان سے صرف ٹیکس لیا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے آئندہ سماعت پر بیرون ملک جائیداد بنانے والے 20افراد طلب کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پیسہ باہر لے جانے والے ملک دشمن ہیں،جن افراد کو بلایا گیا ہے ،ان میں وقار احمد کا نام سرفہرست ہے، جن کی 22جائیدادیں ہیں۔دیگر افراد میں ایس ٹی ڈی سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ کے سی ای او نوشاد ہارون چمڑیا اور محمد امین( 12جائیدادیں فی کس)، زبیر معین (9جائیدادیں) اور 8جائیدادیں رکھنے والے شیخ طاہر، ماجد کپور اور اسلم سلیم شامل ہیں ۔اسی طرح 7جائیدادیں رکھنے پر آغا فیصل، 6جائیدادیں رکھنے پر سید محمد علی اور عبدالعزیز راجکوٹ والا، 5جائیدادیں رکھنے والے سردار ممتاز خان، 4 جائیدادیں رکھنے والے فیصل حسین اور نیئر شیخ، 3جائیداد رکھنے والی خاتون نورین سمیع خان جبکہ 2،2جائیدادوں پر خواجہ محمد رمضان، محمد سعید منہاس، محمد امتیاز فضل، محمد فواد انور ، ہمایوں بشیر، شجاع الرحمٰن گورایہ، سردار دلدار احمد چیمہ کوبلایا گیا ہے۔سپریم کورٹ میں جمعرات کے روز چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین ایف بی آر پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے گرے کمیونیکیشن سے متعلق سوال کیا اورپوچھا کہ آپ انڈین ڈی ٹی ایچ کی اسمگلنگ روکنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ممبر کسٹم آرہے ہیں ،وہ اس بارے میں بتائیں گے ،جب کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ پیش رفت ہوئی ہے ،کچھ مزید وقت چاہیے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایا کہ ایک ہزار ارب کی جائیدادوں کی نشاندہی ہوگئی، اب انہیں واپس لانا کس کی ذمہ داری ہے؟ ان میں سے 100افرادکو عدالت میں حاضر کریں۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کون 20لوگ ہیں ،جنہیں ہم طلب کرکے پوچھیں کہ یہ جائیدادیں کیسے بنائیں؟ ہمیں لندن، دبئی اور دوسرے ملکوں کے بارے میں معلومات چاہیے۔اس موقع پر ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایا کہ دبئی میں 150لوگوں کی 203جائیدادیں ہیں، ان جائیدادوں میں سے ہر ایک کی قیمت 5کروڑ روپے سے زائد ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بیرون ملک جائیدادیں رکھنے والے افراد 894ہیں، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل نے مکالمہ کیا کہ اگر قانون میں سقم ہے تو ترمیم کریں۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل نے استفسار کیا کہ حکومت کس چیز کا انتظار کر رہی ہے، آپ کو بندوں کی نشاندہی کر کے دے دی، آپ 10نمایاں لوگوں کو یہاں لے آئیں، اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ قانون کے مطابق گرفتار نہیں کرسکتے۔ دوران سماعت گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے بتایا کہ 150لوگوں نے کہا کہ جائیداد ہماری ہیں، ظاہر نہیں کی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ان 150میں سے 10کو بلا لیتے ہیں۔ برطانیہ نے صرف جائیدادوں کی تفصیلات دی ہیں، کسی بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات نہیں دیں۔چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں ان پر مقدمہ نہیں کرسکتے، ان سے صرف ٹیکس لیا جا سکتا ہے ،وہ بھی صرف اس صورت میں اگر وہ باہر ٹیکس نہ ادا کر رہے ہوں۔چیف جسٹس پاکستان نے چیئرمین ایف بی آر سے کہا کہ اگر آپ انہیں پراسیکیوٹ نہیں کرسکتے تو ٹیکس تو ریکور کریں۔ جسٹس ثاقب نثار نے گورنر اسٹیٹ بینک سے پوچھا کہ اگر ہم یہ آرڈر کریں کہ دبئی میں ایم سی بی پاکستانیوں کے اکاؤنٹس کی تفصیلات دے تو کیا وہ قانون کے تحت پابند ہو گا؟طارق باجوہ نے بتایا کہ دبئی میں ایم سی بی کا لائسنس وہاں کی حکومت کا ہے، وہ قانون کے تحت ایسا کرنے کا پابند نہیں اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن لوگوں کے باہر بھاری اکاؤنٹس ہیں ۔ان کا ہمیں پتہ نہیں چل سکتا؟ یعنی سوئس اکاؤنٹس کا بھی نہیں پتہ چل سکتا، ایف بی آر نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے ہیں؟گورنر اسٹیٹ بینک نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سوئٹزر لینڈ سے ہمارا معاہدہ نہیں ہوا ،لیکن برطانیہ سے جائیدادوں کے حوالےسے معاہدہ ہو چکا ہے۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ برطانیہ سے صرف جائیدادوں کی تفصیلات کے بارے میں معاہدہ ہوا ہے، اکاؤنٹس کے حوالے سے نہیں، آپ سے زیادہ تو مجھے علم ہے کہ یہ ڈیڑھ سو سے دو سو جائیدادیں ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اِنکم ٹیکس قوانین کے تحت جن پاکستانیوں نے جائیداد ظاہر نہیں کی انہیں گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ تو پھر قوم کے ذہن سے یہ شک نکل جانا چاہیے کہ یہ کوئی ناجائز پیسہ ہے، آپ گرفتار نہ کریں ،لیکن بلا کر پوچھ تو سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل اور ڈی جی ایف آئی اے نے مزید اقدامات کے لیے عدالت سے وقت دینے کی استدعا کی ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فروری سے یہ کیس سن رہے ہیں، ٹائم مانگتے مانگتے جنوری نکل جانی ہے، یا تو ہم اس کیس کو بند کر دیتے ہیں اور حکومت کو کہہ دیتے ہیں کہ حکومت جانے اور لوگ جانیں۔عدالت نے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے 10افراد، جائیداد ظاہر نہ کرنے والوں میں سے 10افراد، ٹیکس نہ دینے والوں میں سے 10افراد اور جائیدادوں سے انکار کرنے والوں میں سے بھی 10لوگوں کے نام عدالت کو دیئے جائیں۔ دوران سماعت ایف آئی اے نے جائیدادوں سےمتعلق سپریم کورٹ میں عبوری رپورٹ جمع کرائی۔رپورٹ کے مطابق سیاسی شخصیات اور ان سے وابستہ 35افراد کی دبئی میں جائیدادیں ہیں، ایف آئی اے نے 3570پاکستانیوں کے خلاف تحقیقات شروع کیں، ان افراد نے دبئی میں ایک ہزار 15ارب روپے کی غیر قانونی جائیدادیں بنائیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ 9بے نامی دار افراد کی نشاندہی بھی کی گئی، 150امیر ترین افراد کی نشاندہی ہوئی جن کی جائیدادوں کی مالیت 30ارب روپے ہے، ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے 386افراد کے خلاف تحقیقات روکی گئیں، دبئی میں 374 جائیدادیں رکھنے والوں نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم 2018 سے فائدہ اٹھایا۔ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق 150افراد نےتسلیم کیا انہوں نے ٹیکس گوشواروں میں جائیدادیں چھپائیں، 674افراد نے ایف آئی اے میں بیان حلفی داخل کیا، 900پاکستانی دبئی میں غیر قانونی جائیدادیں رکھتے ہیں، ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے 44افراد نیب میں کیسز کا سامنا کررہے ہیں، 200 افراد نے بیان حلفی میں جائیدادیں ظاہرکیں مگر ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھایا، 2500افراد رواں سال جون میں ایمنسٹی چاہتے تھے ،مگر ایف بی آر نے شرائط نہیں مانیں، حکام نے حکومت سے ایک اور ایمنسٹی اسکیم لانچ کرنے کی سفارش بھی کی۔ عدالت نے ایف آئی اے کو 20لوگوں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی۔
٭٭٭٭٭