شوکت صدیقی نے بر طرفی سپریم کورٹ میں چیلنج کردی

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )سابق جج ہائی کورٹ اسلام آباد شوکت صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل میں ان باتوں کودہرایاہے اور حساس ادارے کے افسرپر پھر الزامات عائدکیے ہیں کہ جن معاملات کی وجہ سے انھیں ان کے عہدے سے برطرف کیاگیاتھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے اپنی بر طرفی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔اس حوالے سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی درخواست میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ برطرفی ضابطے کی کارروائی کے بغیر عمل میں لائی گئی۔درخواست میں ان کا مزید کہنا تھا کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے، میرے الزامات پر کوئی انکوائری نہیں کی گئی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے قومی اداروں پرالزامات لگانے پر نوکری سے فارغ کیے جانے والے سابق سینئر جج شوکت صدیقی نے کونسل کافیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے لیے وکیل حامدخان ایڈووکیٹ کی خدمات حاصل کی تھیں اور حامدخان نے جمعہ کو آئین کے آرٹیکل 184(3)کے آئینی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرائی ۔سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواست میں شوکت عزیز صدیقی نے موقف اپنایاکہ جوڈیشل کونسل نے آرٹیکل 10 اے کے تحت فئیر ٹرائل کا حق نہیں دیا اور درخواست گزار کو آئینی حق سے محروم رکھاگیا۔ درخواست گزار نے کہا ہے کہ اسے آئین کے آرٹیکل 4 اور 25 کے تحت قانونی اور مساوی حق نہیں ملا، سپریم جوڈیشل کونسل کو الزامات کی انکوائری کرنی چاہئے تھی۔درخواست گزار نے کہا ہے کہ تمام کارروائی کا مقصد مجھے اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے سے روکنا تھا۔انہوں نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا حساس ادارے کے ایک افسرنے احتساب عدالت سے وزیراعظم میاں نوازشریف وغیرہ کو سزا اور اس کیخلاف آنیوالی اپیلوں کی ہائیکورٹ میں سماعت سے متعلق طریقہ کار پوچھالیکن میں نے کوئی ردعمل نہیں دیا تاہم ایک موقع پر میں نے بتایا کہ جب آپ قانونی مراحل سے بخوبی واقف اور ٹرائل کا نتیجہ جانتے ہیں تو مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اس پر انہوں نے سیدھاپوچھا کہ اگرآپ کے پاس اپیل آتی ہے تو کیا موقف ہوگا، میں نے کہاکہ کیس کا قانون کے مطابق ویسا ہی فیصلہ ہوگا جیسا کہ ہرجج نے حلف اٹھایا ہوا ہے ،اگرمیرے پاس بھی کیس آیا تو میرٹ پر فیصلہ کریں گے ، میں اللہ کو جواب دہ ہوں۔ درخواست میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف پرویزمشرف کی جانب سے دائرکردہ ریفرنس اور پھر اس کے خلاف کی جانے والی سپریم کورٹ میں سماعت اور فیصلہ کابھی حوالہ دیاگیاہے اس کے ساتھ ساتھ بتایاگیاہے کہ کونسل کی تاریخ میں شوکت صدیقی دوسرے جج ہیں کہ جنھیں کونسل نے نوکری سے برخواست کرنے کی سفارش کی ہے ۔درخواست میں مزید کہاگیاہے کہ کونسل نے ان کوسنے بغیر فیصلہ دیا،ااور سفارش کی ہے ان کے موکل نے سپریم کورٹ سے کھلی عدالت میں سماعت کرنے کی درخواست کی تھی اور اس کومنظور بھی کرلیاگیاتھامگرجب قومی ادارے نے کارروائی کرنے کی درخواست کی تواس کوبھی کھلی عدالت میں سماعت کے لیے لگایاجاناچاہیے تھا۔مگروہ بھی نہیں لگایاگیاان کے وکیل کے معروضات بھی مکمل طورپر نہیں سنے ہیں صرف چندایک جملوں اور باتوں کاحوالہ دے کران کے خلاف کارروائی کرناقرین انصاف نہیں انھوں نے عدالت عالیہ میں جواور مقدمات کے فیصلے کیے ہیں اور لوگوں کوریلیف دیاہے اسلامی تشخص کوبرقرار رکھنے ،اور ناموس رسالت ﷺکے لیے ان کی خدمات کوفراموش نہیں کیاجاسکتا ۔ درخواست گزار نے کہہ دیا تھاکہ ریاست کے تمام ادارے اور محکمے آئین کے مطابق اپنی حدود کے اندر رہ کر کام کریں ۔درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر بحال کیا جائے۔یادرہے کہ 11 اکتوبر 2018 کو صدر مملکت کی منطوری کے بعد وزارت قانون نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹادیا تھا۔صدر مملکت کو سپریم جوڈیشل کونسل نے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی۔

Comments (0)
Add Comment